(ہارورڈ سے گومل یونیورسٹی تک)

گزشتہ دنوں ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم گومل یونیورسٹی کا وزٹ کرنے کا موقع ملا۔ مومنہ چیمہ فاﺅنڈیشن نے پنجاب کے بعد خیبر پختون خواہ کا سفر شروع کیا ہے اور یہاں گومل یونیورسٹی کو بنیاد بنایا ہے۔ گومل یونیورسٹی کے شعبہ ادویات کے پروفیسر ڈاکٹر اخلاق سے لاہور پنجاب یونیورسٹی میں ملاقات ہوئی۔ ان کی دعوت پر ہم ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے۔ طویل اور تھکا دینے والا سفر مشن نے سہل بنا دیا۔ منزل جب عظیم ہو تو سفر بھی آسان معلوم ہونے لگتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان ہماری زندگی کا پہلا وزٹ ہے۔ خیبر پختون خواہ کے جنوب میں پاکستان کا ایک شہر اور اسی نام کے ایک ڈویژن کا ایک ضلع دریائے سندھ کے مغربی کنارے آباد ہے۔ لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور جانور پالنا ہے۔ اس علاقے میں سرائیکی اور پشتو زبان بولی جاتی ہے۔ یہاں کے قدیم باشندے لکھیسر قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو کوہاٹ سے آئے تھے اور یہاں سکونت اختیار کی تو یہیں کے ہو رہے لکھیسر قوم کا بنیادی پیشہ اسلحہ سازی تھا اور آج بھی یہ لوگ اسلحہ کی مرمت کا کام کرتے دکھائی دیتے ہیں اسی نسبت سے ان کے کچھ لوگوں نے لوہار کا کام بھی کیا۔ اس پیشے سے کئی لوگ منسلک ہیں۔ ایک عرصہ تک لکھیسر قوم کے پاس ڈیرہ کا بہت سا علاقہ ملکیت میں تھا لیکن بعد میں وہ انہی زمینوں کو بیچ کر اپنی قوم کو پسماندہ کر گئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان شروع میں زیادہ تر علاقہ غیر آباد تھا لیکن بعد میں اس علاقے میں کھیتی باڑی کو کافی ترقی دی گئی اور بڑے بڑے فارم ہاو¿س بنائے گئے۔ ٹیوب ویل لگا کر آبپاشی کے نئے نئے طریقے اپنائے گئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک یونیورسٹی گومل یونیورسٹی کے نام سے ہے۔ اس کے علاوہ میڈیکل کالج بھی وہاں کام کر رہا ہے۔ علاقے کی سب سے مشہور سوغات سوہن حلوہ ہے جو پورے پاکستان میں مشہور ہے۔ علاقے کا موسم شدید ہے اور یہاں سخت گرمی پڑتی ہے۔ بارشیں بہت کم ہوتی ہیں۔ اس لیے آبپاشی زیادہ تر ٹیوب ویل سے ہوتی ہے۔ قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمان کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان جو کبھی امن و آشتی کا مظہر تھا ان دنوں فرقہ وارانہ فسادات اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ آج کل تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے پسماندہ علاقے میں 1974میں ایک بڑی یونیورسٹی کے قیام کا سہرہ سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے۔ گومل یونیورسٹی کے گیٹ میں داخل ہوتے وقت ہمارا ذہن امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں بھٹکنے لگا جہاں ایک پاکستانی امریکی ہونہار طالبہ مومنہ چیمہ زیر تعلیم تھی۔ ایک روز اس نے اپنے پاپا کو فون کر کے اپنے دل کی آرزو کا اظہار کرتے ہوئے طویل منصوبہ ڈسکس کیا۔ وہ اپنے آبائی گاﺅں میں ایک سکول قائم کرنا چاہتی تھی جس میں جدید تعلیم و تربیت کا خاص بندو بست کیا جائے اور غریب کے بچوں کو اس قابل کر دیا جائے کہ وہ دیہات سے اٹھ کر امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی تک پہنچنے کی اہلیت پا سکیں۔ مومنہ پاکستان کی ترقی اور کامیابی کا حل جدید تعلیم میں سمجھتی تھی۔ ہارورڈ کی اس طالبہ نے جو خواب دیکھا اس کی تعبیر نے والدین کو دیوانہ بنا دیا اور یہی دیوانگی ڈی آئی خان گومل یونیورسٹی تک لے آئی۔ مستحق طالبات کو اعلیٰ تعلیمی وظائف کا آغاز پنجاب یونیورسٹی سے ہوا اور سلسلہ پھیلتا چلا گیا۔ قانون کی ڈگری دلانے والی مومنہ فاﺅنڈیشن نے دائرہ کار وسیع کر دیا ہے اور گومل یونیورسٹی میں شعبہ فارمیسی کی مستحق طالبات کو وظائف دیئے جا رہے ہےں۔ اس علاقے میں طالبات کا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا حوصلہ افزا اقدام ہے۔ یونیورسٹی میں مستحق سٹوڈنٹس کی طویل فہرست ہے جبکہ نہ ماضی کی صوبائی حکومتوں اور نہ موجودہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے تعلیمی وظائف کی طرف توجہ دی۔ گومل یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کا بھی وزٹ کیا۔ علاقے کی سیاسی و سماجی صورتحال کے پیش نظر والدین لڑکیوں کو صحافت میں بھیجنے کی اجازت نہےں دیتے۔ دہشت گردی کے واقعات میں مرد صحافی بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہےں جس کی وجہ سے مرد بھی صحافی بننے کو ترجیح نہیں دے رہے۔ کے پی کے کا صوبہ دہشت گردی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ تمام تر علاقائی اور سماجی بندشوں کے باوجود لڑکیاں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہےں۔ ملکی و بین الاقوامی میڈیا اس خطہ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے لیکن پاکستان پورے کا پورا غیر محفوظ ہو چکا ہے۔ البتہ حیرانی ہے کہ تبدیلی کے دعویدار بھی خطہ کو محفوظ نہ بنا سکے اور نہ ہی سرکاری تعلیمی اداروں میں واضح تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ جس کو سزا دینی ہو اس کا تبادلہ ڈی آئی خان جیسے علاقوں میں کر دیا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ سادہ اور پیار کرنے والے ہیں۔ ہمیں تو امریکہ سے زیادہ پرامن اور محفوظ محسوس ہوا۔ ڈی آئی خان میں ایک معروف آرٹسٹ عجب خان کا عجب ماحول دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ اتنا بڑا پینٹر اور ایک پسماندہ خطہ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھا اتنا بڑا فن؟ علامہ اقبال کی قریباً تمام مشہور تصاویر عجب خان کے فن کی تخلیق ہےں۔ عجب خان عجیب انسان ہے، دل کا غنی اور نہ بکنے والا فنکار۔ اس ملک نے اپنے سینے میں بڑے عجب لوگ چھپا رکھے ہیں۔پاکستان کا ہر علاقہ محبت اور پیار کی ایک عجب مثال ہے۔ مومنہ بیٹی کا مشن ہمیں پاکستان کے چپہ چپہ تک لے جائے گا، یہ مشن جو ہارورڈ یونیورسٹی سے شروع ہوا تھا اب گومل یونیورسٹی سے آگے نہ جانے کہاں تک سفر کرائے گا۔ منزل کا تعین ہو جا ئے تو تمام سفر سہل ہو جاتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن