آج دفاع وطن کیلئے سیاسی اور عسکری قیادتوں کے یکجہت ہونےکی زیادہ ضرورت ہے

مقبوضہ کشمیر اور کنٹرول لائن پر بھارتی مظالم میں شدت اور بھارتی سفارتی عملہ کے دہشتگردی میں ملوث ہونےکا انکشاف

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم 116 ویں روز بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہے اور تشدد کے تازہ واقعات میں 30 سے زائد کشمیری زخمی ہو گئے جن میں تین کمسن طالبات بھی شامل ہیں۔ انہیں نازک حالت کے باعث ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔ حریت کانفرنس کی جانب سے اظہار یکجہتی ریلی کو ناکام بنانے کے لیے گذشتہ روز کرفیو میں مزید سختی کرتے ہوئے سری نگر کے داخلی و خارجی راستوں پر اضافی نفری تعینات کر دی گئی جبکہ بارہمولہ، پلوامہ، شوپیاں، بانڈی پورہ، اننت ناگ اور سوپور میں جھڑپوں سے اور گھر گھر تلاشی کی کارروائیوں کے دوران ایک درجن سے زائد نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق گذشتہ روز بھارتی فوج کی پیلٹ فائرنگ سے 17 افراد کے جسم چھلنی ہوئے جبکہ تین کمسن طالبات کی دونوں آنکھوں میں پیلٹ کے چھرے لگے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی فوجوں کے 116 روز سے جاری تشدد کے دوران اب تک 1600 نہتے کشمیریوں کو پیلٹ گن سے نشانہ بنایا گیا ہے جس سے 1100 کشمیریوں کی بینائی ضائع ہوئی ہے۔ بھارتی وزارت دفاع نے سروس رائفلوں پر خصوصی کمپیوٹر چپ نصب کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ کشمیریوں کی جانب سے چھینے گئے ہتھیاروں کا پتہ چلایا جا سکے۔ دوسری جانب بھارتی فوج نے ورکنگ باﺅنڈری اور کنٹرول لائن پر بھی بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ گذشتہ روز بریال، سچیت گڑھ، باجڑہ گڑھی، چارواہ اور شکر گڑھ سیکٹروں پر بھارتی سکیورٹی فورسز نے بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی جس سے ایک خاتون شہید اور دو خواتین سمیت آٹھ افراد زخمی ہوئے۔ اس موقع پر پنجاب رینجرز نے بھارتی فورسز کو منہ توڑ جواب دیا جبکہ بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو گذشتہ روز دفتر خارجہ طلب کر کے بھارت کی جانب سے ورکنگ باﺅنڈری اور کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزی پر شدید احتجاج کیا گیا۔
بھارت پر بڑھتے ہوئے عالمی دباﺅ کے باوجود پاکستان کی سالمیت کے خلاف اس کی تخریبی سوچ اور جارحانہ عزائم میں کوئی کمی نہیں آئی جبکہ اس نے کشمیریوں کی استصواب کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو بھی دبانے کیلئے ان پر انتہا درجے کے مظالم کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس پر ہماری جانب سے دو ٹوک اور موثر جواب دینے کے ساتھ ساتھ اقوام عالم اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو ہر بھارتی ظلم سے آگاہ کرنے کے لیے فعال سفارتکاری کی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے عمران خان کی اعلان کردہ دھرنا تحریک اور حکومت کو چلنے نہ دینے کی تسلسل کے ساتھ دی جانے والی دھمکیوں کے باعث حکومت کی توجہ بھی بٹی رہی اور حکومتی مشینری کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور دوسری پابندیاں عائد کرنے کے لیے مصروف کار رکھا گیا جبکہ عوام کی توجہ بھی حکومت کے لیے ”صبح گیا یا شام گیا“ والے حالات کی نوبت لانے والی دھرنا تحریک پر ہی مرتکز رہی۔ اسی طرح دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں مصروف عمل ہمارے عسکری اداروں کو بھی حکومت مخالف دھرنا تحریک میں گھسیٹنے کی کوشش کی جاتی رہی جس سے لامحالہ سکیورٹی اداروں کی توجہ بھارت کی جانب سے ملک کی سرحدوں پر بجائی جانے والی خطرے کی گھنٹی سے ہٹنے کی فضا پیدا ہوئی۔ اس کے برعکس بھارت نے جو ہماری ہر کمزوری کا فائدہ اٹھانے کے لیے موقع کی تاک میں بیٹھا ہوتا ہے، ہمارے ملک میں جاری سیاسی انتشار اور کشیدگی کو ہماری کمزوری پر محمول کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی کے خلاف اپنی سازشوں کا دائرہ مزید بڑھا دیا جس کے تحت ایک جانب تو بھارتی ایجنسی ”را“ کی تخریبی کارروائیوں والا نیٹ ورک مزید متحرک کر دیا گیا اور دوسری جانب پاکستان پر دراندازی اور دہشت گردوں کو تحفظ دینے کے الزامات میں شدت پیدا کر کے اسے عالمی دباﺅ میں لانے کی سازشیں پھیلانا شروع کر دی گئیں۔ اس کی یہ گھناﺅنی سازشیں کافی حد تک موثر بھی ثابت ہوئیں اور امریکہ نے پاکستان پر ڈومور کے تقاضے بڑھانے کے سات پاکستان کے اندر فوجی کارروائی کا عندیہ بھی دیا ہے۔ بھارت نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیا۔ دہلی میں موجود پاکستان کے ہائی کمشن کے عملہ کو بھی بے ہودہ الزامات لگا کر رگیدنا شروع کر دیا اور ہمارے ایک سفارتی اہلکار محمود اختر کو ناپسندیدہ قرار دے کر اسے بھارت چھوڑنے کا حکم جاری کر دیا۔ اس سلسلہ میں محمود اختر نے بھارتی میڈیا اور پاکستانی حکام کو بتایا ہے کہ اسے تشدد کا نشانہ بنا کر پاکستانی انٹیلی جنس سروس سے تعلق ظاہر کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اب دفتر خارجہ پاکستان نے اس کھلی بھارتی بدمعاشی کے خلاف سخت ردعمل دے کر بھارت میں تعینات چار سفارتی اہلکاروں کو ملک واپس بلوانے پر غور شروع کر دیا ہے جبکہ بھارت کی جانب سے اب اپنے ہائی کمشن کو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں کے لیے کھلم کھلا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشن میں تعینات چار سفارتی اہلکار بھارتی ایجنسی ”را“ کے ذریعے پاکستان میں تخریب کاری کا باقاعدہ نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان میں راجیش کمار اگنی ہوتری جو بھارتی ہائی کمشن میں بطور پر کمرشل قونصلر تعینات ہے، بھارتی ”را“ کا تخریب کاری کا نیٹ ورک چلا رہا ہے اور بھارتی ہائی کمشن کے دوسرے اہلکار بلبیر سنگھ، امردیپ سنگھ اور سرجیت سنگھ بھی اس تخریبی نیٹ ورک کا حصہ ہیں جو پاکستان میں تخریب کاری کی مختلف وارداتیں کر چکے ہیں۔ متذکرہ بھارتی سفارتی اہلکاروں کی تخریب کاری کی وارداتیں حکومت پاکستان کے نوٹس میں آ چکی ہیں چنانچہ حکومت نے انہیں ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں بالخصوص بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور تخریب کاری کا اعتراف تو خود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی فخریہ انداز میں کر چکے ہیں جنہوں نے گذشتہ ماہ اپنی تقریر میں بھارت کی جانب سے بلوچ علیحدگی پسندوں کی معاونت و سرپرستی اور انہیں پاکستان کی سلامتی کے خلاف تخریبی کارروائیوں کے لیے کمک فراہم کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس سے قبل بلوچستان سے گرفتار ہونے والا بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو بھی اپنے اقبالی بیان میں بلوچستان میں ”را“ کا نیٹ ورک چلانے کا اعتراف کر چکا ہے جبکہ اس نیٹ ورک کی جانب سے افغانستان کی سرزمین پاکستان میں تخریب کاری کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہے۔
اگر آج بھارت کھلم کھلا کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر بھی تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ہماری چیک پوسٹوں اور ملحقہ شہری آبادیوں پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جس سے بیسیوں بے گناہ شہری اور اہلکار شہید اور بے شمار شہری زخمی ہو چکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ”را“ کے تخریبی نیٹ ورک کے ذریعے دہشت گردی کی وارداتیں کر ا کے ہماری سلامتی کمزور کرنے کے درپے ہے جبکہ پاکستان سے الحاق کی تمنا رکھنے اور بھارتی تسلط سے آزادی کے خواہش مند کشمیری عوام پر بھی بھارتی سکیورٹی فورسز نے مظالم کی انتہا کر رکھی ہے جنہیں پاکستان کی جانب سے اخلاقی اور سفارتی سطح پر ہر قسم کے دامے، درمے، سخنے تعاون کی ضرورت ہے تو یہ صورتحال ہماری سیاسی اور عسکری قیادتوں سے ملک کی سلامتی کے تحفظ کےلئے یکجہت ہونے اور باعمل ٹھوس منصوبہ بندی کرنے کی متقاضی ہے جبکہ اس مکار دشمن کے ساتھ دوستی، تجارت اور کسی بھی قسم کے تعاون کا سوچنا اب اسے اپنی کمزوری کا عندیہ دینے کے مترادف ہو گا۔ ہمیں اب قومی اتحاد کے ساتھ ملک کی سرحدوں کے تحفظ کی ضامن افواج پاکستان کی توجہ صرف دفاع وطن کی ذمہ داریوں پر مرتکز رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر آج بھارت ہمیں عالمی تنہائی سے دوچار کرنے کی سازش بھی پروان چڑھا رہا ہے جس کے لیے اس نے اپنے سفارتی محاذ کو گرم کیا ہوا ہے تو اس کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رکھنے کی بھی ہمیں قطعاً ضرورت نہیں۔ دشمن کے ساتھ دشمن والا ہی سلوک کیا جائے اور بھارت میں تعینات اپنے سفارتی عملہ کو واپس بلوا کر بھارتی سفارتی عملہ کو اس کے ملک کی جانب دھکیل دیا جائے جو یہاں باقاعدہ طور پر تخریب کاری کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ ہمیں ملک کی سلامتی کو بہر صورت ہر معاملے پر فوقیت دینی ہے کیونکہ ہمارا دشمن ظالم اور شاطر ہے جو ہماری سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں میں کبھی کمی نہیں آنے دے گا۔

ای پیپر دی نیشن