لیکن یاد رکھئے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ اُمتِ مسلمہ اور پاکستانی اپنی بہنوں کو فراموش کر چکے ہیں مگر اللہ نے فراموش نہیں کیا۔
مگر متعدد پاکستانیوں کی اس بے حسی کی وجہ کیا ہے؟ پاکستانی حکومتوں کی لاپرواہی، نظام تعلیم کی کوتاہیاں اپنی جگہ مگر اس کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں۔ یہ تاریخ کا زبردست المیہ ہے کہ اس تمام مسلم قتل و غارت گری کے دوران قتل کرنے والے بھی ہندو سکھ تھے، نام نہاد محافظ کا روپ دھارنے والی پولیس اور فوج بھی ہندو سکھ تھی، نظم و نسق بھی ہندو سکھوں کے ہاتھ میں تھا، اور تاریخ لکھنے والے بھی یہی ہندو سکھ تھے۔ یعنی معصوم و بے ضرر، نہتے مسلمانوں کو پھاڑنے والے بھی بھیڑےے تھے اور درندگی کا ریکارڈ رکھنے والے بھی یہی بھیڑیے تھے۔ ظاہر ہے درندے اپنی درندگی کا ریکارڈ نہیں رکھا کرتے۔ لہٰذا جو کچھ ہم تک پہنچ چکا ہے وہ اس جور و ستم کے اندوہناک واقعات کا عشرِ عشیر بھی نہیں جن سے مسلمانوں کی اس نسل کو واسطہ پڑا تھا اور انہوں نے اپنے دفاع کے لئے کوئی تیاری کی تھی کیونکہ اس وقت بھی مسلمانوں کو غافل رکھنے اور درسَ گوسفندی دےنے والے متعدد نام نہاد دانشور موجود تھے۔
فی زمانہ طاغوتی طاقتیں انتہائی بے حےائی اور قوت کے ساتھ حق ےعنی اسلام کے مقابل سینہ سپر ہیں اور ہر ممکن حربہ سے اسلام اور اسلام کے نام لیواﺅں کو مغلوب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان حالات میں صرف نظریات اور امن کے سبق اس آتش بدی کو فرد نہیں کر سکتے بلکہ جتنی باطل کی قوت ہے اس سے زیادہ قوت کے ساتھ عملی طور پر اس سے ٹکرانا لازم ہے
با جہانِ نامساعد ساختن
ہست در میداں سپر انداختن
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک زور آور پہلوان کی طرح بِن سوچے سمجھے اپنے حریف پر پَل پڑیں۔ یہ قوت مسلمان کے بازو میں موجود ہے۔ اسے صرف منظم کرنے، بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ اُن دانشوروں کی تربیت کرنی ہے جو لکشمی دیوی کے سحر میں مبتلا ہیں یا جن کے اذہان کو بھارتی پروپیگنڈے نے ماو¿ف کر رکھا ہے۔ کچھ دانشور ایسے ہیں جو ”ہندو مسلم متحدہ ہندوستانی قومےت“ کے زہریلے سانپ ابھی تک اپنے سینوں میں پالے ہوئے ہیں اور مناسب موقع پا کر وہ ملتِ اسلامیہ کو ڈستے رہتے ہیں۔ اس طریقے سے وہ پاکستان کی بنیادوں کو منہدم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ہر ایک ادارے، محکمے اور تنظیم کو بے لوث تندہی اور لگن سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان اداروں میں سیاستدانوں، علمائے دین اور دانشوروں کے نام گرامی سب سے پہلے آتے ہیں بالخصوص وہ سیاستدان اور علما¿ جو حکومت مےں شامل ہیں اور وہ دانشور جو اکثر ٹیلی ویژن پر نظرآتے ہیں وہ آپس میں لڑنا، الزام تراشیاں اقربا پروری، رشوت خوری اور غلط سفارشیں ترک کر دیں۔ جو جس صلاحیت کا مالک ہو وہ وہی کام کرے۔ وزراءسمجھ لیںکہ ان کے کردار کا عوام پر گہرا اثر ہوتا ہے اور یاد رکھیں کہ ان کے عیش و عشرت اور محافل عیش و طرب عوام کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتیں۔ علمائے دین کو اللہ تعالیٰ نے بہت بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے اس کا شُکر یوں ہی ادا کیا جا سکتا ہے کہ آپ اس مقامِ فضلیت کو ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کریں۔ غیر مسلم طعنے دے رہے ہیں کہ اب اسلام قابل عمل نہیں رہا۔ یاد رکھئے اس الزام کی تمام تر ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر ہے۔
میں نے ملت اسلامیہ کے تینوں ناخداو¿ں کی خدمت میں نہایت سادگی سے گزارش کر دی ہے مگر شاید وہ اس پر عمل نہ کر سکیں اس لئے کہ جن مدرسوں سکولوں اور کالجوں میں ان کے اذہان تیار ہوئے ہیں وہاں انہوں نے خود غرضی ہیرا پھیری تنگ نظری اور لچھے دار گفتگو کی تعلیم پائی ہے۔ ان کے لئے ممکن نہیں کہ راتوں رات بدل جائیں۔ لہٰذا قوم کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے دوررس منصوبے اور حکمت کی ضرورت ہے۔ شجر اسلامیہ کی مرجھائی شاخوں کو پھر سے سدا بہار کرنے کیلئے ہمیں اسکی جڑوںکو مضبوط کرنا ہے۔ اس کی دو مثالیں ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ پہلی مثال اسرائیل کی ہے کہ انہوں نے اپنے نوجوانوں کو اپنی تارےخ سے آگاہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے صدیوں کی دکاندارانہ ذہنیت رکھنے والی غلام قوم اےک عظیم خود دار عسکری قوت بن کر اُبھری اور عربوں کے سینوں میں خنجرگاڑھ دیا۔ اب تمام عرب چوہوں کی طرح اسرائیل کے سامنے دبے بیٹھے ہیں دوسری مثال بھارت کی ہے۔ انہوں نے بھی بالکل وہی طریقہ اختیارکیا۔ انہوں نے ایک نظریہ اپنایا جس کا بنیادی مقصد ہندو کلچر اور ہندو مذہب کی ترویج اور اسلامی شعائرکی تذلیل تھا۔ استادوں نے مسلمانوں کے ظلم و ستم کی جھوٹی کہانےاں سُنا سُنا کر نئی پود کے ذہنوں کو مسموم کر دبا۔ انہیں بتایا گیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمانوں سے بدلہ لیا جائے یہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ کل کی غلامانہ ذہنیت رکھنے والا بزدل بنیا سر اونچا کر کے نہ صرف مسلمانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رہا ہے بلکہ بھارت سے اسلام کا وجود ختم کرنے کی کھلم کھلا دھمکیاں دے رہا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت میں ہر سال مسلمانوں کی سینکڑوں قتل گاہیں قائم ہوتی ہیں جنہیں بھارت کے شاطر سیاستدان ہندو مسلم فسادات کا نام دے کر مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرا کر مسلمانوں کو ہی سزا دے کر بات ختم کر دیتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان کے سکولوں میں تاریخ نام کا کوئی مضمون موجود ہی نہیں۔ تاریخ نہ پڑھا کر ہمارے صاحبان اختےار نے بھارت کو کھلی چھٹی دے دی کہ جب وہ چاہیں اپنے پروپیگنڈے اور فلموں کے ذریعے پاکستانی قوم کے ذہنوں کو اپنی ڈھب پر ڈھال لیں۔ اگر کہیں پاکستانی تارےخ پڑھائی بھی جا رہی ہے تواس انداز سے کہ بجائے حب الوطنی کے بچوں کے دلوں میں مطالبہ¿ پاکستان کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو جاتے ہےں اور ان کے ذہنوں پر نظریہ پاکستان کی واضح اور روشن تصویر اُبھرتی ہی نہیں۔ اور یوں نوجوان نسل نظریہ پاکستان سے بدظن ہوکر بے راہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پاکستانیوں کو درسِ گوسفندی دینے والے اور بھارتی دشمنوں کے ساتھ دوستی کا سبق دینے والے ”خاک کے بٹوارے اور حدِ سرحد“ کو تمام خرابیوں کی جڑ قرار دینے والے بھی تو ایسی ہی درسگاہوں کے پروردہ ہیں۔(ختم شد)