وقتی طور پر ہی سہی لیکن اسلام آباد میں فساد کا خطرہ ٹل گیا۔ فساد ہوتا تو اُس کا سب سے زیادہ نقصان حکومت کو ہوتا اور شاید وطنِ عزیز کو بھی۔ یہ اچانک حکومت اور اُس کے مخالفین نے اپنی اپنی تلواریں اپنے اپنے میان میں کیسے رکھ لیں؟ کیا بقول مولا بخش چانڈیو صاحب! الیکٹرانک میڈیا پر یہ زوردار آواز سننے کے خوف سے کہ ”میرے ہم وطنو! تم سب چور ہو!“۔
” شیخ اُلاسلام “کی تحریکِ قصاص ؟
حکومت کے خلاف دھرنا عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریکِ انصاف کے قائدین اور کارکنوں کو دینا تھا ۔ عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد اُن کے ساتھ تھے اور پاکستان مسلم لیگ ق کے چودھری صاحبان بھی ۔ علامہ طاہر اُلقادری کے تو دو دھرنے پہلے بھی ناکام ہو چکے ہیں لیکن اُنہوں نے ”اِنا للہ و اِنا الیہ راجعون“ تو 2 نومبر کے نہ ہونے والے دھرنے پر پڑھی ہے اب وہ سانحہ ¿ماڈل ٹاﺅن کے ” شُہدا“ کے ورثاءکو کیا جواب دیں گے ۔ اگر خدانخواستہ اُن کے دونوں بیٹوں میں سے ایک بیٹا بھی ” شہید“ ہو جاتا تو کیا وہ اُس کا قصاص لئے بغیر بھی اپنی تحریکِ قصاص ختم کر دیتے؟
شیخ رشید احمد کا دُکھ
”یومِ تشکر “ منائے جانے سے پہلے عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد نے کہا کہ ”28 اکتوبر کو عمران خان کو لال حویلی میں نہ آنے کا مجھے کوئی دُکھ نہیں ہے کیونکہ ہم جنگ کے عالم میں گِلے شکوے نہیں کرتے“۔ اِس پر عمران خان نے کہا کہ ”کپتان کی اپنی حکمتِ عملی ہوتی ہے ۔ وہ کسی کے کہنے پر سڑکوں پر مارا مارا نہیں پھرتا“۔ ظاہر ہے کہ کپتان نے پنجابی اور اردو کے شاعر سعید آسی کی یہ کتاب نہیں پڑھی ہو گی جِس کا عنوان ہے ”تیرے دُکھ بھی میرے دُکھ ہیں!“۔
”یوم تشکر؟“
یہ پہلے سے طے تھا کہ اسلام آباد میں دھرنا دینے سے پہلے ” یکم نومبر سے سپریم کورٹ میں پانامہ لِیکس کے بارے میں سماعت شروع ہو جائے گی“۔ یکم نومبر کو سماعت کے پہلے دِن پانامہ لِیکس کے بارے میں چیف جسٹس صاحب انور ظہیر جمالی صاحب نے سپریم کورٹ کے جج کے برابر اختیارات کے ساتھ جوڈیشل کمِشن بنانے کا اعلان کردِیا۔ جِس پر عمران خان نے اعلان کِیا کہ ”یہ میری بہت بڑی کامیابی ہے ۔ میرا مقصد پورا ہوگیا ہے، مَیں اپنا دھرنا منسوخ کرتا ہُوں اور 2 نومبر کو ہم یومِ تشکر منائیں گے“۔ ( عمران خان نے یہ بھی کہا ہے کہ ” 2 نومبر سے سپریم کورٹ وزیراعظم کی تلاشی شروع کرے گی ) گذشتہ روز (2 نومبر کو ) پاکستان تحریک انصاف اسلام آباد میں جلسہ¿ عام کر کے یومِ تشکر منا چکی ہوگی۔ مسلم لیگ ق نے 2 نومبر کے دھرنا میں شریک ہونے کا اعلان کِیا تھا لیکن مسلم لیگ ق کی قیادت نے اپنے کارکنوں کو عمران خان کے جلسئہ عام میں شریک ہونے سے روک دِیا تھا اور کہا تھا کہ وہ گھرو گھری چلے جائیں“۔ وہ یقیناً چلے گئے ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے ریمارکس!
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کہتے ہیں کہ ”ملک میں ہیجانی کیفیت ہے ۔ ہم معاملے کو زیادہ عرصہ تک طول نہیں دے سکتے ۔ فریقین متفق نہ ہُوئے تو ” ٹی آر اوز“ "Terms Of Reference" ہم دیں گے۔ 2 ہفتہ سے سنسنی پھیلائی جا رہی ہے۔ ”ہائی پروفائل“ کیس ہے۔ پوری قوم کی نظریں پانامہ لِیکس پر لگی ہوئی ہیں ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ”نیب نے روزمرہ کی کارروائی سے انحراف کِیا ہے ۔ سڑکوں پر ایک ہی سوال ہے کہ فلاں فلاں نے اپنی آمدن سے زیادہ جائیداد کیسے اور کیوں بنا لی؟ جسٹس شیخ عظمت سعید نے نیب کی ناقص کارکردگی پر برہمی کا اظہار کِیا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ”جب دولت ملک سے باہر بھیجی جائے تو معاملہ نیب کے دائرہ اختیار میں آتا ہے “۔ لیکن نیب نے کارروائی کیوں نہیں کی؟۔
بے لگام گھوڑوں کو لگام دیں!
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ ”لوگوں کو پُر سکون رہنے دیں اور فریقین اپنے گھوڑوں کو لگام دیں“۔ وزیراعظم میاں نواز شریف اور عمران خان (اور حزبِ اختلاف کے دوسرے قائدین) کے گھوڑوں کا مسئلہ زبان و بیان کا ہے۔ مرزا غالب نے ”توسن طبع“ ( گھوڑے کے مزاج) پر بات کی ہے۔ جب کہا کہ
” پھر غزل کی روِش پہ چل نِکلا
تو سنِ طبع¿ چاہتا تھا لگام!“
ہماری سیاست میں معاملہ غزل کا نہیں ۔ ” ہزل“ (ٹھٹھول/ بیہودہ گوئی) کا ہے۔ ہر کوئی شہنشاہِ ہزل ” جنابِ چرکِین“ سے بازی لے جانے کی کوشش میں ہے لیکن اگر ” گُھڑ سوار“ بھی بے لگام ہو جائے تو اُس کو لگام کون ڈالے گا؟
جِتنے مُونہہ اُتنی باتیں!
وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ” پانامہ لِیکس پر معزز عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی مَیں اُسے خُوش دِلی سے قبول کروں گا “ ۔ عمران خان کا بیان ہے کہ ”پانامہ لِیکس پر جوڈیشل کمِشن کے قیام سے مسلم لیگی لیڈروں کے چہروں پر سوگ عیاں ہے اور بڑے بیان دینے والے گیڈروں کی طرح گھروں میں دُبک گئے ہیں“۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ ”20 کروڑ عوام جیت گئے ہیں“۔ ( یہ بے چارے 20 کروڑ عوام بیچ میں کہاں سے آگئے؟) میاں صاحب نے یہ بھی کہا کہ ” وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کی صوبوں میں منافرت پھیلانے کی کوشش ناکام ہوگئی“۔ نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ جناب اسفند یار ولی خان کا بیان ہے کہ ”پاکستان تحریک انصاف کے ٹائروں سے ہوا نکل گئی ہے “ اور ہر معاملے پر بیان جاری کرنے والے وزیر اعظم ہاﺅس کے ڈاکٹر آصف کرمانی کے مطابق ” 2 نومبر عمران خان کے لئے ” یومِ پسپائی اور لال حویلی والے کے لئے ” یومِ رسوائی ہے“۔
جمہوریت کی جِیت
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی طویل پریس کانفرنس کا نچوڑ یہ ہے کہ ”سپریم کورٹ کا فیصلہ کسی کی ہار اور کسی کی جیت نہیں ہے ۔ پوری قوم اکٹھی ہوگئی ہے ۔ عمران خان کا اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے کا اعلان سیاستدان کا فیصلہ ہے اور مَیں اُسے "Welcome" کرتا ہُوں ۔ چودھری صاحب نے عمران خان سے اپنی 44 سالہ دوستی کا بھی ذکر کِیا اور کہا کہ ” میری اور عمران خان کی دوستی کا تعلق عمران خان کی طرف سے دھرنے میں وعدہ خلافی پر ٹوٹ گیا۔
چودھری نثار علی خان اور جناب عمران خان کی دوستی اگر ” چھولیاں داوڈھ“ نہیں تھی تو یہ تعلق پھر جڑ سکتا ہے لیکن چودھری صاحب یہ تو بتائیں کہ ”جِس ملک میں 60 فی صد لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ اُنہیں اور بالائی طبقہ کو مِلا کر محض سپریم کورٹ کی طرف سے پانامہ لِیکس کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمِشن بنائے جانے پر ”قوم اکٹھا کیسے ہو گی؟“۔ اپنی اپنی باری پر اقتدار میں آنے والے بالائی طبقے کا ”نظامِ مُک مُکا“ کو جمہوریت کا نام کیوں دِیا جائے؟ سوال یہ ہے کہ ” اگر 2 نومبر کو دھرنا نہیں ہُوا اور یومِ تشکر منایا گیا تو اُس سے عوام کو کیا مِلا اور آئندہ جب کبھی حکومت اور کسی دھرنا دھاری میں مُک مُکا ہُوا تو عوام کو کیا مِلے گا؟“
عوام کو کیا مِلا؟ کیا مِلے گا؟
Nov 03, 2016