بغداد (بی بی سی + آئی این پی) موصل سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کروانے کے لیے پیش قدمی کرنے والی عراقی افواج مرکزی محاذ پر بغیر کسی جانی نقصان کے دشمن کی ابتدائی صفیں عبور کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ عراقی فوج کے ترجمان صباح النعمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کارروائی میں داعش نے بہت سارے جنگجو مارے گئے ہیں جبکہ عراقی فوج کو جانی نقصان نہیں اٹھانا پڑا ہے۔ دو برس قبل موصل پر شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے قبضے کے بعد پہلی بار وہاں داخل ہونے والی عراقی افواج کا کہنا ہے کہ شہر کی مکمل آزادی تک ان کی پیش قدمی جاری رہے گی۔ صباح النعمان کا کہنا ہے کہ حکومتی افواج شہر کی گلیوں میں گھر گھر لڑائی کے لیے تیار ہیں۔ بدھ کو موصل میں داعش کے خلاف کارروائی کا 17واں روز ہے، جس میں کردش پیشمرگاہ اور سنی عرب قبائلیوں سمیت 50 ہزار جوان شامل ہیں۔ داعش کے خلاف کارروائی میں شریک افواج کے ہمراہ موجود بی بی سی کے ایک نامہ نگار کا کہنا ہے کہ عراقی افواج کو موصل میں سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ تاہم انسدادِ دہشت گردی سروس کے ترجمان صباح النعمان کا کہنا ہے کہ 'ہم نے موصل کے مرکزی حصے میں دشمن کی صفوں کو توڑ دیا ہے۔ ہم نے ایک انتہائی اہم علاقہ چھڑوایا ہے جو مشرق سے موصل میں داخل ہونے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔' 'ہم نے اس علاقے میں داعش کے ساتھ سخت لڑائی لڑی ہے اور ہم جلد اسے آزاد کروا سکتے ہیں اور وہ بھی بغیر کسی جانی نقصان کے، داعش کے بہت سارے ہلاک ہونے والوں کے ساتھ۔' اقوامِ متحدہ نے ایک مرتبہ پھر موصل میں پھنسے ہوئے 10 لاکھ شہریوں کے بارے میں خدشات ظاہر کیے ہیں۔ موصل سے 70 کلومیٹر دور واقع قصبے دوہک سے کام کرنے والی نارویجن ریفیوجی کونسل کی الولڈ سٹروم کا کہنا ہے کہ موصل سے نقل مکانی کرنے والے افراد وہاں پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں خدشہ ہے کہ انھیں شہر سے نکلنے کے لیے محفوظ راستے نہیں دیے جا رہے۔ ہم یہاں ایسے افراد کی میزبانی کی تیاری کر رہے ہیں اور اس کے لیے کیمپ بنا دئیے گئے ہیں۔ ادھر موصل میں فوج نے داعش سربراہ البغدادی کو محاصرے میں لے لیا۔ کردش علاقے کے صدر مسعود برزانس کے چیف آف سٹاف نے کہا اگر وہ مارا گیا تو اسکا مطلب ہے داعش کا سارا نظام تباہ ہوگیا۔
موصل