شاہ سلمان کا دورہ روس ، عرب ممالک اور پاکستان!

گزشتہ دنوں سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے روس کا چار روزہ سرکاری دورہ کیا۔ انکے دورے کے اخراجات اور اہتمام تمام دنیا کی توجہ کا مرکزبنے رہے کیونکہ انکے ساتھ 1500 افراد کا وفد تھا جن کیلئے ماسکو کے مہنگے ترین ہوٹل پورے کے پورے بک کروائے گئے تھے۔ اپنے جہاز سے اترنے کیلئے سعودی بادشاہ اپنی ذاتی سونے سے بنی سیڑھی بھی ساتھ لیکر گئے تھے اور انکے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کیلئے ایک سعودی جہاز روزانہ ماسکو سے سعودی عرب کا چکر لگاتا تھا۔ یہ سب داستانیں اپنی جگہ لیکن ان سے ہٹ کر سیاسی طور پر انکا یہ سرکاری دورہ تمام دنیا، خلیجی ممالک اور خاص طور پر پاکستان کیلئے نہایت اہمیت کا حامل تھا کیونکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں سعودی عرب اور خلیجی و عرب ممالک کے تعلقات اور انکی خارجہ پالیسیاں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ اسی لیے اس د ورے کا تفصیلی جائزہ لینا پاکستان کی حکومت اور دفتر خارجہ کیلئے نہایت اہم ہے۔ 

کسی بھی سعودی بادشاہ کا یہ روس کا پہلا سرکاری دورہ تھا۔ روس کی حکومت نے بھی اپنے مہمان کا انکے شایان شا ن استقبال کیا۔ تمام شہر میں بے شمار بورڈ لگائے گئے تھے جن میں روسی اور عربی زبانوں میں سعودی عرب کے بادشاہ کو خوش آمدید کہا گیا تھا ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ روس میں ’’ سعودی ثقافتی ہفتہ‘‘ بھی منایا گیا۔ اس سے قبل 2007ء میں روسی صدر نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا ۔ اس وقت کے عالمی حالات کی بنا پر وہ دورہ خاموشی سے گزر گیا۔ اس وقت لگتا تھا کہ خلیج اور عرب ممالک کے سیاسی حالات مکمل طور پر امریکہ کے قابو میں ہیں اور رہیں گے اس لیے روس سے زیادہ قریبی تعلقات بنانا نہ تو سعودی عرب کو ضروری لگا اور نہ اپنے مفاد میں نظر آیا۔ رواں برس مئی میں سعودی ولی عہد، پرنس محمد بن سلمان نے کا روس کا دورہ کیا جس کے دوران انہوں نے روسی صدر پیوٹن کے ساتھ ملاقات میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ سعودی عرب روس میں دس بلین ڈالر تک کی سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ چنانچہ شاہ سلمان کے موجودہ دورہ روس کے دوران دونوں ممالک میں تجارت، معیشت، سرمایہ کاری اور ثقافت سمیت دفاع سے متعلق پندرہ کے قریب معاہدے ہوئے جن کی مالیت کئی بلین ڈالر ہے۔ ان میں اہم ترین فضائی دفاع کے جدید ترین نظام S-400 کے خریدنے میں سعودی عرب کی دلچسپی کے علاوہ ٹینک شکن میزائیل اور دیگر اسلحے کی فروخت پر بھی بات چیت ہوئی۔ ایک اور معاہدے کے مطابق روس سعودی عرب میں ایک بلین ڈالر سے زائد مالیت کی ریفائنری لگائے گا۔ اسکے علاوہ اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ عالمی منڈ ی میں تیل کی قیمتوں میں استحکام کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ روس OPEC کا رکن تو نہیں ہے لیکن بڑی مقدار میں تیل پیدا کرنیوالے ممالک میں شامل ہے اور اسکی تیل کی یومیہ پیداوار تقریباَ 10.3 ملین بیرل ہے۔ روس اور سعودی عرب دونوں ممالک کی معیشت کا بڑا انحصار تیل پر ہے اور دونو ں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ مل کر مارچ 2018ء تک ایسے اقدامات کرینگے جن سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں استحکام پیدا ہو۔
اگر ہم سعودی عرب کی سفارتکاری کے انداز کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ سعودی بادشاہ صرف اس وقت اور اس صورت میں کسی دوسرے ملک کا دورہ کرتے ہیں جب وہ موجودہ یا آنیوالے وقت میں اس ملک سے تعلقات کو سعودی عرب کیلئے نہایت اہم سمجھتے ہوں۔ کچھ عرصہ قبل تک لگ رہا تھا کہ خلیج اور عرب خطے میں امریکی مرضی اور حمایت ہی سب سے اہم ہے لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ حقیقت اسکے برعکس اور امریکہ کیلئے کافی تلخ ہے کیونکہ امریکہ کے بہت سے منصوبے اسکی مرضی کیمطابق پورے نہیں ہو سکے۔ اب ایک جانب روس اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے تو دوسری جانب شام میں امریکی پالیسی کی ناکامی اور قطر کی ’’ ناکہ بندی ‘‘ کے دوران امریکہ کی ’’دوغلی پالیسی‘‘ نے سعودی عرب کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ خارجہ پالیسی میں مکمل طور پر امریکہ پر انحصار مستقبل میں سعودی عرب کیلئے غلطی ثابت ہو سکتا ہے۔ امریکہ پر مکمل انحصار کی پالیسی کی وجہ سے ہی دنیا کی ایک بڑی اور امیر معیشت ہونے کے باوجود عالمی سیاست میں سعودی عرب کا کردار اب تک محدود رہا ہے ۔ لگتا ہے کہ اب سعودی عرب درست طور پر یہ سوچ رہا ہے کہ اسے عالمی بساط میں امریکہ اور چند ایک ممالک تک محدود رہنے کی بجائے ایک وسیع کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اپنی تقریر میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے عرب خطے اور شام میں امن کے قیام کی بات تو کی لیکن اپنے اس پرانے مطالبے کو دُہرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہونا چاہئیے۔
روس اور سعودی عرب کے تعلقات میں یہ بڑھتی گرم جوشی عالمی سیاست اور خاص طور پر خلیجی ا ور عرب ممالک کی خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلیوں کا آغاز ہو سکتا ہے اور اس خطے میں روس کے اثرو رسوخ میں اضافے کا سبب بھی۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب سعودی عرب موجودہ عالمی بساط میں امریکہ کا قریب ترین حلیف سمجھا جاتا ہو اسکے بادشاہ کا روس کا چار روزہ سرکاری دورہ اور اربوں ڈالر کے معاہدے نہایت اہمیت کے حامل ہیں، اور اس خطے میں امریکی خارجہ پالیسی کی ناکامی اور کم ہوتے عالمی اثر رسوخ کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن