قوم کو درپیش سیاسی بحران اور فکر اقبال

امریکی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ عراق افغانستان پاکستان اور بھارت کے اختتام پر ہمارے خطہ کے مستقبل کا جو منظر نامہ اور تصور ابھر کر سامنے آیا ہے اس سے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنوبی ایشیاء کے بارے میں نئی پالیسی کی مزید وضاحت سامنے آئی ہے۔ جس سے علاقہ میں بھارت کی بالادستی یا دوسرے سادہ الفاظ میں امریکن وائسرائے مقرر ہونے کے ثبوت ملتے ہیں۔ نہ صرف پاکستان بلکہ اس علاقہ پر گہری نظر رکھنے والے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور مبصرین متفق ہیں کہ اس پالیسی پر عملدرآمد ہونے سے خطہ میں طاقت کا توازن تمام ممالک اور بالخصوص پاکستان کو منفی طور پر بری طرح متاثر کرے گا۔ اس پس منظر میں پاکستان کی قومی سلامتی ہر پہلو سے کئی انواع کے خطرات سے دوچار ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف اگر پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات پر نظر ڈالی جائے تو سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے مطابق حالات 1970ء سے بھی زیادہ بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں ہونیوالے لندن اجلاس کا ایجنڈا منظرنامے کی سنگینی ظاہر کرتا ہے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ نون مائنس ون کے انتشار کی دلدل میں گرفتار ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ کی صدارت نئی آئینی ترمیم کے باوجود کانٹوں کی سیج کے مترادف ہے۔ نہ صرف سابق وزیراعظم اور ان کا خاندان بلکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار بمعہ اپنی اہلیہ اور دیگر افراد خاندان سنگین مقدمات میں بری طرح الجھے ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی انتشار کا شکار ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ قاف کی قیادت کو بھی قومی احتساب بیورو نے کرپشن کے الزامات میں طلب کر لیا ہے۔ مجموعی طور پر موجودہ صورتحال جبکہ جنرل انتخابات چند ماہ بعد ہونے والے ہیں ایک سیاسی زلزلہ سے کم نہیں ہیں۔میری عمر نوے برس سے اوپر ہو گئی ہے میں نے علامہ اقبال اور قائد اعظم کو نہایت قریب سے دیکھا ہے اور اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے اس لئے موجودہ حالات میں میری سوچ کا فکر اقبال کی طرف لوٹ جانا ایک قدرتی اور فطری تقاضا ہے۔ اگر چہ اس ضمن میں علامہ کی متعدد تقاریر اور تحریروں سے بھی اس پر روشنی پڑتی ہے تاہم قائد اعظم کے نام قلمبند کئے گئے خطوط اس ضمن میں اساسی حوالہ کی حیثیت اختیار کر جا تے ہیں مئی 1936ء نومبر 1937ء کے درمیان قلمبند کئے گئے 41خطوط ان معنی میں یکطرفہ ہیں کہ قائد اعظم کے جوابات مفقود ہیں، تاہم مسلم لیگ اور پاکستان کے نقطہ نظر سے ان میں خاصہ اہم مواد ملتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ جداگانہ وطن کا تصور پیش کر نے کے بعد قلمبند کئے جانے کی وجہ سے ان خطوط کی سیاسی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ 1942ء میں جب ان انگریزی خطوط کا مجموعہ مرتب ہوا تو اس کا دیباچہ قائد اعظم نے تحریر کیا اسی سے یہ اندا زہ لگایا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم ان خطو ط کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔ذیل میں ان خطو ط سے منہ بولتی چند سطریں بلا تبصرہ پیش کرتا ہوں:

’’ ہندوستان کے اندر اور باہر کی دنیا پر اس امر کی وضاحت از حد ضروری ہے کہ اس ملک میں محض معاشی مسئلہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے نقطہ نظر سے تہذیبی مسئلہ ہندوستان کے بیشتر مسلمانوں کیلئے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کم از کم اسے معاشی مسائل سے بلحا ظ اہمیت کسی طرح سے بھی کمتر نہیں قرار دیا جا سکتا۔ میں ہندوؤں پر یہ حقیقت واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ان کی سیا سی چالیں خواہ وہ کتنی لطیف دہ ہی کیوں نہ ہوں ہند کے مسلمانوں کو اپنے تہذیبی تشخص سے باز نہیں رکھ سکتیں۔‘‘ (20 مارچ1937ئ) ’’۔۔ لیکن ان لوگوں کے ایسے حقو ق تسلیم کر نے کا کیا فائدہ جن کی غر بت کے مسائل حل کر نے میں یہ آئین کسی طرح سے بھی ممدو معاون ثابت نہیں ہو سکتا لہذا یہ بے سود ہے‘‘۔ (12 جون1937ئ) اس لئے مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کیسے دور ہو؟ لہذا مسلم لیگ کے تمام مستقبل کا انحصا ر اس کارکردگی پر ہے جو اس مسئلہ کے حل کیلئے ہو گی ۔ اگر کوئی سیاسی جماعت اس قسم کا کوئی وعدہ نہیں کر سکتی تو مجھے یقین ہے کہ پہلے کی مانند اب بھی مسلما نوں کی اکثریت اس سے غیر متعلق رہے گی۔‘‘ (28مئی 1937ئ) اس خط کی آخری سطریں علامہ کی جس سیاسی بصیرت کی مظہر ہیں اس کا عملی نمونہ ہماری حکومتیں گزشتہ 70برس سے پیش کرتی آ رہی ہیںاور جس قر ب نوازی، بے انصافی اور معاشی عدم مساوات کی طرف علامہ نے توجہ دلائی تھی وہ ہماری سیاسی جماعتوں کا ٹریڈ مارک قرار پائی ۔ جا گیرداروں ، وڈیروں، نوابوں اور پیروں پر مشتمل حکومت نہ صرف یہ کہ ہر آمر کیلئے ریڈ کارپٹ میں تبدیل ہوتی رہی بلکہ اس نے عملاً تصور پاکستان کے مقاصد کی جس طرح سے نفی کی وہ ہماری قومی تاریخ میں المیہ باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ علامہ اقبال کے بد ترین اند یشے کیوں اس طرح درست ثابت ہوئے کہ ان کا محولہ بالا مراسلہ آج کے اخبار کا اداریہ محسو س ہو رہا ہے۔
مسلم لیگ نے پاکستان بنایا تھا مگر اس کی بے بنیادی کی ذمہ دار بھی مسلم لیگ ہی قرار پا تی ہے اس لئے کہ یہ بنیادی طور پر جا گیرداروں کی جماعت تھی۔ جمہوریت نا آشنا جا گیردار کو صرف طرہ کے کلف اور ز مین سے پیار ہوتا ہے۔ اگرچہ مستند تا ریخی کتب سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بیشتر جا گیرداروں نے غداری کے باعث انگریزوں سے ز مینیں حا صل کی تھیں اور یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ بیشتر قائد اعظم کے خلا ف تھے مگر ۱۹۴۲ء تک پاکستان بننے کے امکانات واضح ہو چکے تھے لہذا سب مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور بالآ خر پاکستان کو اپنی جا گیر میں شامل کر نے میں کامیاب ہو گئے۔ آج عوام کی اکثریت کیلئے پاکستان ہتھیلی پر انگارہ کی صورت اختیار کر چکا ہے تو وجہ جمہوریت، اسمبلیاں، سیاسی مہم جو اور طالع آزما سیاستدان ہی نہیں بلکہ بنیادی سبب مغل عہد سے مشابہ جاگیرادرانہ نظام اپنے تمام جبرو استبداد کے ساتھ، جسے تقویت ملتی ہے خرد سوزی اور منطق دشمنی پر مبنی ذہنی رویوں سے ، جو بنیادی پرستی کی اساس استوار کر کے ملائیت کے فروغ کا باعث بن کر فکر نو کی روشنی کے بجائے اندھیرے کو چراغ قرار دیتے ہیں َ ہم نے تعمیر پاکستان کو کوٹھیوں ، محلا ت، کار خا نوں اور پلازہ کی تعمیر کے مترادف جانا یوں حاکم اور محکوم دونوں ہی ’’تعمیر‘‘ میں منہمک ہو گئے مگر علامہ اقبال کا یہ شعر کسی کو نہ یاد رہا:
جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
علامہ اقبال کے اس نوع کے اشعار سے صرف نظر کے نتیجہ میں ہمارے ہاں ہمیشہ سے جہالت کا کلٹ بنا رہا ہے چنانچہ روشن خیالی کے بر عکس تاریک خیالی سکہ رائج الوقت ہے۔ اقبال اور قائد اعظم کا تصور پاکستان یعنی ’’ایک جدید اسلامی ‘ جمہوری‘ فلاحی ریاست کا قیام‘‘ ابھی تک شرمندہ تعبیر ہے۔

کرنل (ر) اکرام اللہ....قندیل

ای پیپر دی نیشن