سابق وزیراعظم نواز شریف کی سیاسی حالت کو دیکھتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری بھی اپنے سیاسی 'جوبن' پر جوبن لانے کی کوشش کررہے ہیں اور اسی لئے انہوں نے سترہ سال بعد ایسا راز اگلا ہے جس سے پاکستان کے تمام مسائل 'حل" ہوتے 'نظر' آرہے ہیں زرداری صاحب کی جانب سے فاش کئے جانے والا راز ملک کے تمام مسائل اور معاملات کو چٹکیوں میں حل کرکے رکھ دے گا معاشی طور پر پاک چین دوستی کے باعث شروع کیا جانے والا سی پیک منصوبہ کتنا فائدہ دے گا اس کو تو درست طرح سے اندازہ لگانا ابھی تک مشکل ہے مگر آصف زرداری نے کئی سال بعد سربستہ راز سے پردہ اٹھا دیا ہے کہ انہیں 1990 کی دہائی میں حراست کے دوران شریف برادران نے قتل کروانے کی کوشش کی۔ سیاستدان یا بیوروکریٹس تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں یہ تو زبان زدعام ہے مگر ان کی یادداشت بھی تاخیری ہوتی ہے اس بات کا انکشاف آصف زرداری کے حالیہ بیانات سے ہوگیا ہے۔ اس انکشاف کی بدولت ہی ملک و قوم اب تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک کی صفوں کو بھی چیرتا ہوا آگے نکل جائے گا اور وہاں پر بھی زرداری صاحب ہی اس ترقی کے سفر کو روکنے میں کارآمد ہوں گے کیونکہ زرداری صاحب کے راز کی بدولت ترقی کرتے ہوئے اتنا بھی آگے نہیں نکلنا کہ دنیا کے ممالک ہمیں کسی اور سیارے کے لوگ سمجھنا شروع ہوجائیں بین الاقوامی تعلقات بھی تو کوئی چیز ہیں نہ جن کے بغیر روپے پیسے کی آمد و رفت ممکن نہیں کیونکہ تعلق ہو گا تو ملکی ترقی سے کمایا جانے والا سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوسکے گا۔
بیرون ممالک سرمایہ کہ منتقلی بھی تو بہت ضروری ہے کیونکہ ہمارے بہت سے سیاستدان اور بیوروکریٹس سختی سے اس بات پر کاربند ہیں کہ صرف اپنے ملک کے لوگوں پر خرچ کرنا کہاں کا انصاف ہے لیکن ان پر عجب قسم کا الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ 'منی لانڈرنگ" کرتے ہیں۔ اب کوئی ذرا پوچھے ایسا پروپیگنڈہ کرنے والوں سے کہ جب سیاستدان اور بیوروکریٹس اپنی 'حق حلال" کی کمائی بیرون منتقل کریں تو یہ ملکی خزانہ لوٹنا کیسے ہوگیا یہ کونسا علی بابا اور چالیس چور ہیں۔ یہ جو ملکی قوانین کے ذریعے ایسے ہونہار لوگوں کو باندھ کے ملکی، شخصی اور خاندانی ترقی کا راستہ روکا جا رہا ہے یہ دشمن کی چال ہے جو ملک و قوم کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے بھائی پاکستان سے سرمایہ ادھر اْدھر آجائے گا تو ہی دنیا کو علم ہوگا کہ یہ ملک 'کنگلوں' کا نہیں ہے ملک کی 'شان' بڑھانے والے افراد کو ملک کا دشمن کہا جارہاہے ایسے حالات میں کون کوشش کرے گا کہ ملک ترقی کرے جب اس کی ترقی میں حصہ ڈالنے والے افراد کا ہر طرح کا ٹرائل کروایا جارہا ہے۔
شریف خاندان کے احتسابی عمل کے بعد سیاسی اور تجارتی حالات کے باعث عوام مخمصہ کا شکار تھی مگر اب تمام الجھنیں دور ہوگئی ہیں اور دنیا کے کئی ممالک آصف زرداری سے رابطہ کررہے ہیں کہ انہیں بھی یہ فارمولہ بتا دیا جائے گہ ملکی ترقی کے لئے ضروری راز کس طرح سالوں پوشیدہ رکھے جاسکتے ہیں۔ سچ بولنے کے حوالے سے کسی کی یاداشت تاخیری حربے استعمال کرے اور اس پر وہ جرمانہ کی بجائے انعام کامتمنی ہو تو ایسا لائق تحسین تو نہیں ہے حالانکہ تاخیر سے بل جمع کروانے یا بچوں کی فیس ادائیگی پر جرمانہ کردیا جاتا ہے لیکن ہمارے سیاست دان تھوڑے ’وکھری ٹائپ’ کے ہیں جو ملک میں ‘امن و امان’ اور سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کے لئے بے وقت سچ سے گریز کرتے ہیں۔آصف زرداری نے یہ ‘سچ’ ایسے وقت میں بولا ہے جب شریف فیملی منی لانڈرنگ کے الزامات پر ہر طرف سے شکنجے میں آچکی ہے اور شکنجے کی اس تیاری میں سابق وزیر اعظم نوازشریف کا اپنا ہاتھ بھی ہے کیونکہ انہوں نے قوم سے خطاب اور اسمبلی کے فلور پر منی ٹریل کی موجودگی کے دعوے کئے تھے جو ابھی تک سچ ثابت نہیں ہوسکے۔ جس طرح کی باتیں ان دنوں آصف زرداری کررہے ہیں اس سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہورہی ہے کہ کوئی ہے جس کے دل میں گھر کرکے وہ ایک مرتبہ پھر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے کی تگ و دو کی کوشش کررہے ہیں تاکہ غیریقینی کی فضا کا خاتمہ کرکے وہ پاکستان کو ترقی کی جانب گامزن کرسکیں۔ لیکن شریف بردران کے خلاف جو ‘سچ’ وہ اگل رہے ہیں ان کو راز کی صورت میں کیوں انہوں نے سنبھالے رکھا اس بات کا جواب بھی وہ خود ہی دے سکتے ہیں کیونکہ ان کو چیزوں کو سنبھالنا خوب آتا ہے مجال ہے سرے محل یا ان کی باقی کسی بھی قسم کی جائیداد کے حوالے سے کسی بھی انْکے سیاسی حریف کے ہاتھ کچھ بھی لگا ہو لگتا بھی کیسے جب ماڈل گرل ایان علی جیسی ہوتو بندہ جائیداد کے معاملات کو دیکھے یا قدرت کے نظاروں سے آنکھوں کو خیرہ کرے ان دنوں صرف آنکھوں کو خیرہ کرنے کی بہت ضرورت ہے کیونکہ کانوں کی حالت تو میڈیا کے کچھ دوستوں نے سیاستدانوں کے ساتھ مل کر ایسی بنا دی ہے جیسے جیب کترے کی رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد دھلائی کی صورت میں ہوتی ہے مجال ہے جو کسی قسم کی موسیقی سماعت سے ٹکرانے کے بعد کانوں کو پرسکون کر دے۔ پانامہ لیکس کے بعد جس طریقہ سے سیاستدانوں کے الزامات کانوں سے ٹکرارہے ہیں انہوں نے تو کانوں کے بھی کان پکڑوادیے ہیں جس طرح رسہ کشی میں سب سے آخر میں کمر کے گرد رسہ باندھنے والا شخص سمجھتا ہے کہ پوری ٹیم کا سہارا وہی ہے اسی طرح ان دنوں کچھ سیاستدان یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ موجودہ حالات میں صرف وہی سیاسی رسہ کو مضبوطی سے تھام سکتے ہیں لیکن حالات کی سمت بتا رہی ہے کہ اب سیاست کے امور رسہ کی بجا ئے کچے دھاگے سے بھی سرانجام دے گئے تو کوئی ان کو توڑنے کی کوشش نہیں کرسکے گا اور اگر کسی نے ایسی سعی بھی کی تو وہ خود ایسے بھنور میں پھنس جائے گا جس سے نکلنا مشکل ہوگا چاہے کسی بھی سمت سے دعا دارو کروالے۔سیاستدان جس طرح کے بیانات داغ رہے ہیں وہ ملک میں سیاسی بساط لپیٹنے کے لئے کافی ہیں مگر عوام بھی بڑی باریکی سے حالات کودیکھ رہے ہیں کہ ذاتی اور قومی مفادات کے لئے کون کیا کررہا ہے۔ کچھ غلط لوگ عوام کو بڑااچھا سبق دے رہے ہیں جس کو عوام کو یاد رکھنا ہوگا تاکہ مستقبل میں وہ ایسے افراد کا چنائو کرنے سے اجتناب کریں جب کسی بھی چیز کی بنیاد میں لالچ کا پانی شامل ہونا شروع ہو جائے تو ایسے حالات میں اس کا زیادہ دیر تک باقی رہنا ممکن نہیں ہوتا اور ایسا ہی ان دنوں پاکستان کے سیاسی حالات کے ساتھ سیاست دان کر رہے ہیں اور اقتدار کی عمارت میں صرف اپنے حصے کو چھوڑ کر باقی عمارت کو گرانے کے لئے مستقل طور پر غیر مطلوب حصوں میں پانی ڈال کر بنیاد کو کھوکھلا کر رہے ہیں جو پورے سسٹم کے لئے زہر قاتل ہوگا۔