اسلام آباد(خصوصی نمائندہ)ایوان بالا میں ریاستی اداروں اور اختیارات کے ثلاثہ کی سکیم میں ان کے کردار پر بحث کے دوران مسلم لیگ ن کے جاوید عباسی نے کہاکہ پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرے تو سب ادرے اس کو جواب دہ ہوں گے۔سارے ادارے پارلیمنٹ کے بے بی ہیں۔پارلیمنٹ کو اختیارات آئین نے دیئے ہیں۔پارلیمان کبھی ایگزیکٹو اور کبھی عدلیہ کے سامنے جھکا۔اسی لئے پارلیمنٹ کو وہ عزت حاصل نہیں ہوئی جو ہونی چاہئے تھی۔ادارے مضبوط ہو نے کی بجائے روز کمزور ہوتے جارہے ہیں ۔کیا ہم نے انگریزوں کے بنائے ہوئے قوانین کا جائزہ لیا۔آج ہم یہ لڑائی لڑ رہے ہیں کہ اس کا احتساب ہونا چاہئے اور اس کا نہیں۔آج منتخب ہونے والا رکن یا تو چاہتا ہے کہ حکومت میں شامل ہوجائے یا فنڈز مل جائیں۔ رکن چاہتے ہیں کہ انہیں میونسپل کمیٹی کے اختیارات مل جائیں۔اس کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں۔عدلیہ کو بحالی کے بعد عدالتی نظام کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہئے تھا۔عتیقہ اوڈھو جیسے معاملات پر سوموٹو نوٹس لئے گئے۔عدلیہ آزاد ہوئی تو کہا کہ ہر چیز ڈٹرمنٹ کریں گے۔محسن لغاری نے کہا کہ جمہوریت کا بنیادی مقصد جواب دہی اور ذمہ داری کا احساس ہے۔اتنی اہم بات کررہے ہیں نشاندہی کردیں تو ایوان۔میں شاید کورم پورا کرنا مشکل ہو جائے۔ایوان کی خالی کرسیاں ہمیں طاقت نہیں دیتیں۔ہمیں اپنی زمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ عدلیہ کے لئے ترامیم کرنی پڑیں کیونکہ ہم کمزور تھے۔ہمیں اپنی یعنی پارلیمان کی طاقت کا احساس نہیں ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بات کی تو حکومت اور عدلیہ ناراض ہو جائے گی۔ہم خود عجلت میں کی گئی قانون سازی میں خود ہی الجھ جاتے ہیں۔آئین سے ہمیں طاقت ملتی ہے۔ہم نے نظام میں خود کو کمزور کیا ہے۔ترکی اور انڈونیشیا میں پارلیمنٹ پر عسکری اداروں کا گہرا سایہ تھا۔ان کی پارلیمنٹ نے اختیارات خود استعمال کرنے اور پارلیمنٹ کو عوام کے حقوق اور ضروریات کے لئے استعمال کا فیصلہ کیا۔میرے خیال میں عدلیہ پارلیمنٹ کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کررہی۔پارلیمنٹ اپنا کام کرے تو کوئی ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔جھانزیب جمالدینی کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرریاں سینیٹ کے ذریعے ہونی چاہیئے، جو قانون پارلیمنٹ بنائے عدلیہ اور ایگزیکٹو کو اسکے تابع ہونا چاہئے۔سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ رقم کی بیرون ملک منتقلی کو روکنا ہوگا۔وسائل باہر چلے جائیں تو سیاسی جماعتیں منشور کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتیں، عثمان کاکڑ نے کہا کہ سول ملٹری بیوروکریسی اپنی ذمہ داریاں صحیح نہیں نبھا سکتی ۔انکی کوشش ہے کہ پارلیمان کے اختیارات کم کر کے پارلیمان کے اختیارات کے مالک بن جائیں، فوجی اسٹیبلشمینٹ تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔اس کے علاوہ بلوچستان میں تین بچوں سمیت خواتین کے اغوا کا معاملہ پر وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے سینیٹ میں جواب دیتے ہوئے کہاکہ اغوا کنندگان امن و امان خراب کرنے کی سازش کر رہے تھے۔چیئرمین سینٹ نے کہا کہ کل آپ نے کہا کہ وہ غیرقانونی طور پر سرحد پار کر رہے تھے۔آج آپ کہہ رہے ہیں کہ امن و امان خراب کر رہے تھے۔بچے کیسے امن و امان کیسے خراب کر سکتے ہیں۔اس پر طلال چوہدری نے کہاکہ خواتین کے حوالے سے کل والے بیان پر قائم ہوں۔وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہاکہ بچوں کے معاملے پر تحقیقات کر رہے ہیں ۔جو لوگ امن و امان خراب کرتے ہیں وہ اکثر غیر قانونی سرحد پار کرتے ہیں۔حکومت کی طرف سے ایوان بالا کو بتایا گیا ہے کہ ایمبیسی روڈ جی سکس کی تعمیر کے لئے جن درختوں کو کاٹا گیا ہے ان کی جگہ نئے درخت لگائے جارہے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کی ہدایت پر جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایمبیسی روڈ جی سکس پر درخت کاٹ کر کوئی روڈ نہیں بنایا جارہا۔ ماسٹر پلان میں گرین ایریا‘ سروس روڈ سمیت ساری جگہیں متعین کردی گئی ہیں۔ پاکستان انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی نے عوامی شنوائی کے بعد منصوبے کی منظوری دی۔ جتنے درخت کاٹے جاتے ہیں ان سے زیادہ لگائے جاتے ہیں۔ شجرکاری کے موسم میں مزید پودے لگائے جائیں گے۔ چیئرمین سینٹ نے گزشتہ روز وزیر مملکت برائے داخلہ کو ہدایت کی تھی کہ اس معاملے پر ایوان کو اعتماد میں لیں۔چیئرمین سینٹ نے اجلاس آج جمعہ کی دس بجے تک ملتوی کردیا۔
سینیٹ بحث