کراچی (وقائع نگار) سندھ کی تمام پارلیمانی جماعتوں نے چھٹی مردم و خانہ شماری کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور انہیں دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جمعرات کو سندھ اسمبلی میں مردم و خانہ شماری سے متعلق پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کی خاتون رکن نصرت بانو سحر عباسی کی تحریک التواء پر دو گھنٹے تک بحث ہوئی۔ محرک نے اپنے خطاب میں کہا کہ مردم شماری کے نتائج دیکھ کر ہم حیران و پریشان ہو گئے ہیں۔ صرف کراچی میں 40 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن رہتے ہیں۔ اکثر غیر قانونی تارکین وطن نے پاکستانی شناختی کارڈ بھی بنوا لیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی آبادی ایک کروڑ کم دکھائی گئی ہے۔ پورا سندھ ان نتائج کو مسترد کرتا ہے۔ ایم کیو ایم کے رکن صابر حسین قائم خانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مردم شماری کے عمل میں سندھ کے اعتراضات کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ نادرا کے اعداد و شمار کچھ اور ہیں اور مردم شماری کے اعداد و شمار کچھ اور ہیں۔ سندھ کے تحفظات دور کیے جائیں۔ ایم کیو ایم کی خاتون رکن ہیر اسماعیل سوہو نے کہا کہ مردم شماری کے مسئلے پر سندھ کی تمام سیاسی جماعتیں ایک ہیں۔ متنازع مردم شماری سے سی پیک کا منصوبہ بھی متنازع سے ہو جائے گا۔ ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج اپنی مرضی سے بنائے گئے ہیں۔ اس طرح دوسرے صوبوں کی اسمبلی نشستیں بڑھیں گی اور ہماری کم ہوں گی۔ یہ سندھ کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ جب تک غلطی کا ازالہ نہ ہو ، نئی حلقہ بندیا ں نہ کی جائیں ۔ ایم کیو ایم کے رکن رؤف صدیقی نے کہا کہ مردم شماری میں سر گننے کی بجائے سر کاٹ ہی دئیے گئے۔ وزیر وزیر اطلاعات و محنت سید ناصر حسین شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 19 سال بعد بھی مردم شماری درست نہیں ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم کے ارشد خلجی نے کہاکہ مردم شماری میں دھاندلی اس لیے کی گئی ہے کہ شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کو برتری حاصل ہے ۔ ایم کیو ایم کے دیوان چند چاولہ نے کہا کہ پینسل سے فارم بھرنے کی وجہ سے مردم شماری میں دھاندلی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے جاوید ناگوری نے کہاکہ مردم شماری کا مسئلہ کالا باغ ڈیم کی طرح اہم ہے ۔ سندھ میں لاکھوں تارکین وطن کا شمار نہیں کیا گیا۔ وزیراعلیٰ سندھ سیدمراد علی شاہ نے کہاہے کہ مردم شماری شفاف انداز میں ہونی چاہیے کیونکہ یہ مسئلہ بڑا اہم ہے لیکن ہر ایک کو بیانات کی حد تک اس میں دلچسپی ہے۔سندھ اسمبلی میں مردم شماری کے نتائج پر پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ جیسے ہی مردم شماری کا عمل شروع ہوا کچھ شکایتیں آئیں، میں نے کہا تھا کہ مردم شماری شفاف انداز میں ہونی چاہیے کیونکہ یہ مسئلہ بڑا اہم ہے۔ انہوں نے کہاکہ مجھے دکھ ہے کہ اتنے اہم ایشو پر حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے ارکان کی ایوان میں تعداد انتہائی کم ہے، قائد حزب اختلاف بھی ایوان میں نہیں ہیں جبکہ میں اپنی مصروفیات ترک کرکے اسمبلی پہنچا ہوں۔ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ مردم شماری پر ہماری تجاویز پر عمل نہیں کیا گیا اور ہمارے تحفظات دو نہیں کیے گئے ۔ اس کے باوجود ہم چھٹی مردم و خانہ شماری کو اس لیے یکسر مسترد نہیں کرتے کہ ہم 1998 ء میں واپس چلے جائیں گے ۔ ہم نہیں چاہتے کہ مردم شماری کا سارا عمل (اسکریپ) ہو جائے لیکن ادارہ شماریات کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو مطمئن کرے۔ خواتین پر چھرے سے حملے کے حوالے سے جمعرات کو سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم پاکستان کی خاتون رکن ہیر اسماعیل سوہو نے تحریک التواء پیش کی۔ سندھ کی سرکاری ملازمتوں میں معذور افراد کا کوٹہ 2 فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کرنے کا بل منظور کر لیا گیا۔ سندھ اسمبلی نے جمعرات کو سندھ سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں ترمیم کا یہ بل اتفاق رائے سے منظور کر لیا۔