ہر ذی شعور انسان کو معلوم ہے کہ معاشروں اور ملکوں کی ترقی کا دارومدار کام کرنے اور کام کو بڑھانے پر ہوتا ہے جس کیلئے سرمایہ بنیادی اینٹ کا کام کرتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں کے ماحول کو فروغ دینے کیلئے امن و امان کا قیام ضروری ہے۔ معاشرے میں گروہ بندیوں‘ فرقہ پرستی کے علاوہ سیاسی سطح پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مابین اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صورت میں سر پھٹ سکتے ہیں۔ قلوب و اجسام تار تار ہو سکتے ہیں۔ خون خرابہ ہو سکتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ معاشرے میں اتحاد و اتفاق کی فضا ختم اور ایک ہی جگہ رہنے والے لوگ ٹکڑیوں میں تقسیم ہو سکتے ہیں‘ لیکن اس طرح کے ماحول میںکام یعنی کاروباری سرگرمیاں بڑھنے کے امکانات سکڑنے بلکہ معدوم ہونے لگتے ہیں۔ پاکستان کے کاروباری طبقہ نے بالعموم ہر حکومت کے ساتھ دل و جان سے بھرپور تعاون کیا ہے۔ کوشش کی ہے کہ لڑائی جھگڑوں سے دور رہے۔ اپنی توجہ سرمایہ کاری راغب کرنے‘ اندرون ملک لانے اور اسے نتیجہ خیز منصوبوں میں لگانے پر مرتکز رکھے۔ جن حکومتوں نے خود کو بزنس دوست بنایا اور کاروباری طبقہ سے مشاورت کو لازمی قرار دیا انہوں نے ملکی ترقی کیلئے کچھ نہ کچھ سرگرمی دکھائی۔ موجودہ حکومت کے سربراہ عمران خان نے الیکشن مہم اور اس سے قبل ملکی ترقی اور عوام کو خوشحالی دینے کیلئے بہت سے وعدے وعید کئے تھے۔ یقین ہے کہ انہیں اپنے وعدوں اور اعلانات کا پاس و لحاظ ہے۔ ان وعدوں کی تکمیل کیلئے ملکوں ملکوں جانے‘ ملاقاتیں کرنے اور تعاون کے جذبوں کو پاکستان کے حق میں مفید بنانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ سعودی عرب اور چین کے دورے اسی ریلیف پروگرام کی کڑیاں ہیں۔ بدقسمتی سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے یمین ویسار میں موجود ان کے متعدد دوستوں کو جناب عمران خان صاحب کی سنجیدگی کا بہت کم احساس ہے۔ سیاست میں وہی افراد کامیاب رہتے ہیں جنہیں دوست بنانے اور اپنے ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ملائے رکھنے کا ہنر آتا ہے۔ موجودہ حکومت کے بعض افراد اپنی شاندار کارکردگی سے دوست کم‘ لیکن زبان درازی سے دشمن زیادہ بناتے ہیں۔ اس طرز فکر و عمل سے ہر جگہ ٹکرائو کاماحول پیدا ہونے کا اندیشہ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے کاروباری طبقہ فکرمند ہے۔ اسے ٹکرائو نہیں امن کا ماحول درکار ہوتا ہے۔ ٹکرائو معاشرے میں زہریلا پن پیدا کرتا ہے۔ صاحبان اقتدار پر لازم ہے کہ وہ اپنے اندر برداشت کی زیادہ سے زیادہ قوت پیدا کریں۔ اینٹ کا جواب پتھر سے اور بات کا جواب گالی سے دینے کی بجائے اپنے مقاصد پر نگاہ رکھیں۔ ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ امن رہے۔ سرمایہ کاری سامنے آئے اور کاروباری سرگرمیاں فروغ پائیں۔ مقاصد کی تکمیل کیلئے بہت زیادہ اکھاڑ پچھاڑ سے بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔ پنجاب کے آئی جی کے اچانک تبادلہ کے بعد مال و دولت کی فراوانی سے مزین وفاقی وزیر اعظم سواتی اگر پڑوسیوں کی ایک گائے بھینس کا اپنے فارم ہائوس میں داخل ہونے کو انا اور طاقت کے اظہار کا ذریعہ نہ بناتے۔ وزیراعظم پاکستان کے زبانی حکم سے آئی جی اسلام آباد کو ٹرانسفر نہ کراتے بلکہ تحمل‘ بردباری اور معاف کر دینے کے بڑے پن کا ثبوت دیتے تو یقینی بات ہے کہ حکومت اور وزیراعظم عمران خان صاحب کیلئے مثبت جذبات بڑھاتے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار صاحب نے حکومتی اقدامات کو قانون کے تابع بنانے کے سلسلے میں جو کچھ کہا یا کیا‘ اس پر وفاقی وزیر کاآگ بگولا ہوکر چیلنج کا سماں باندھنا بھی احسن اقدام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح معاشی ترقی کی رفتار تیز کرنے کیلئے وزیراعظم عمران خان کی جدوجہد کے پس منظر میں کسی وفاقی وزیر کا چالیس پچاس سیاستدانوں کو جیل ڈالنے کی بڑھک بھی حکومتی کارکردگی بڑھانے میں معاون ثابت نہیں ہو سکے گی۔ یہ کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے حکمرانوں‘ سیاستدانوں سمیت تمام طبقات کو لڑائی جھگڑے کے ماحول کو خیرباد کہہ کر برداشت‘ تحمل اور بردباری کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ صنعتکاری اور برآمدات بڑھانے کیلئے بجلی اور گیس کی سستے داموں فراہمی کا بندوبست کرنا چاہئے۔ ڈالر کی روزافزوں بلند پروازی کو روکنے کی کوشش اور آئی ایم ایف سے قرض لینے کیلئے ایسی کڑی شرائط سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے جن سے ملکی صنعت و تجارت کو نقصان کا اندیشہ ہو۔