آپ نے ایک مرتبہ میرا ہاتھ چوماتھا، جاوید ہاشمی خلوت کی بات بھی کہہ دی، بھری عدالت میں عقیدت کا راز افشا کر دیا : چیف جسٹس
اسلام آباد (محمد اعظم گِل) معمول کے مطابق ساڑھے نو بجے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مقدمات کی سماعت کا آغاز کیا اور جب دوسرے نمبر پر آئی جی اسلام آباد تبادلہ از خود نوٹس کیس کی کورٹ ایسوسی ایٹ نے پکار لگائی تو اٹارنی جنرل انور منصور، آئی جی اسلام آباد جان محمد، سابق وزیر اطلاعات اور سپریم کورٹ کے سنیئر وکیل علی ظفر روسٹرم پر آئے تو ساتھ ہی وفاقی وزیراعظم سواتی بھی کالا کوٹ پہنے تسبیح لئے دونوں ہاتھوں کو باندھے علی ظفر ایڈووکیٹ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ چیف جسٹس نے کمرہ عدالت کی نشستوں کی طرف دیکھتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے کی کورٹ میں موجودگی کا استفسار کیا تو بشیر میمن روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس نے جے آئی ٹی بنانے کا کہا اور بولے کہ آئی ایس آئی کو میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں نہیں ڈال رہا، ہر کیس میں آئی ایس آئی کو نہیں ڈالنا چاہتے۔ چیف جسٹس نے کتاب کو آنکھوں کے قریب کیا اور کہا میرا آجکل عینک کا نمبر تھوڑا سا بدلا ہوا ہے اور پھر آئین کی کتاب کو اٹھایا اور کہا کہ ہم صلح کو تو دیکھیں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کو نا دیکھیں؟ اسی اثناء میں اعظم سواتی نے اپنے وکیل کے کان میں کچھ کہا اور وہ بولے کہ میرے موکل ایسے نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں انہیں ذاتی طور پر نہیں جانتا اور ایک دفعہ پھر واضح کیا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے ہم ایسے لوگوں کو کیسے برداشت کریں اور آئین کی کتاب کو لہراتے ہوئے بولے یہ آئین کس لیے ہے؟ عدالت میں چلنے والی فوٹیج کو دیکھ کر چیف جسٹس وفاقی وزیر کے وکیل کی طرف دیکھتے ہوئے افسردہ لہجے میں بولے یہ ہے مقابلہ اور ساتھ ہی ویڈیو بند کروا دی پنجابی زبان میں کہا
"بس ٹھیک وا رہن دیو پتہ چل گیا وا" ایک اور کیس جو پنجابی زبان سے متعلق تھا چیف جسٹس نے جب درخواستگزار کی درخواست خارج کی تو درخواست گزار نے کہا مجھے سنے بغیر درخواست خارج کر رہے ہیں جس پر جسٹس اعجازالاحسن بولے کہ یہ ڈیبیٹنگ کلب نہیں سپریم کورٹ ہے، اسکے بعد درخواست گزار نے روسٹرم چھوڑا اور کمرہ عدالت نمبر ایک سے باہر چلے گئے۔ اصغر خان عملدرآمد کیس جو کہ سیاستدانوں کو پیسے دینے کے الزام سے متعلق تھا تو اس کیس کا جب فیصلہ لکھوایا جا رہا تھا مخدوم جاوید ہاشمی جو کہ پہلے سے ہی کمرہ عدالت میں موجود تھے وہ روسٹرم کی طرف آئے اور کہا کہ مائی لارڈ کچھ گزارشات کرنے کی ہمیں بھی اجازت ہے؟ چیف جسٹس لیگی رہنما کی طرف دیکھتے ہوئے بولے جی بالکل آپ بتائیے کیا کہنا چاہتے ہیں؟ جاوید ہاشمی نے اصغر خان کیس میں ہر دفعہ بلا لینے کا چیف جسٹس سے گلہ کیا۔ چیف جسٹس نے کہا میں نے تو آپ کو نہیں بلایا۔ جاوید ہاشمی بولے کہ مجھے رات اٹھا کر دستخط کروائے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے مسکرا کر کہا کہ ان سے رات کی بجائے دن کو دستخط کروا لیا کریں۔ میرا قصور کیا ہے؟ مجھے بارہا بلایا جارہا ہے میں تو جب آپ بلاتے ہیں ڈر جاتا ہوں اور مجھے خوف یہاں لے کر آتا ہے اور جو آپ سے نہیں ڈرتے وہ بھگت رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کوئی نہیں ڈرتا، کورٹ سے باہر آپ سے ہمارا عقیدت کا رشتہ ہے جس پر جاوید ہاشمی بولے کہ آپ نے میرا ایک دفعہ ہاتھ بھی چوما تھا جس پر چیف جسٹس بولے آپ نے خلوت کی بات بھی کہہ دی، اور پھر مسکراتے ہوئے چیف جسٹس بولے کہ کل میرے اور شیخ صاحب کے درمیان محبت بھری باتیں ہوئی ہیں لیکن ہم نے تو اسکا یہاں اظہار نہیں کیا۔ ایڈووکیٹ اکرم شیخ اپنے نشست سے اٹھے اور مسکرا دیے اسکے بعد جاوید ہاشمی روسڑم کو چھوڑ کر واپس نشست پر بیٹھ گئے اور ایڈووکیٹ اکرم شیخ سے مسکراتے ہوئے کچھ کہا اور پھر بنچ میں چلنے والے دیگر مقدمات کی کارروائی سننے لگے، سماعت ملتوی ہوچکی تھی پھر ایک اور کیس کی کارروائی ہوئی مگر جاوید ہاشمی کمرہ عدالت میں ہی موجود تھے۔ کچھ دیر کے بعد چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے جاوید ہاشمی کو دیکھا اور بولے کہ آپ نے بھری عدالت میں آج میری اور اپنی عقیدت کا راز افشا کر دیا جس پر لیگی رہنما بولے کہ مجھے اخلاقی طور پر راز کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی میں تو سپریم کورٹ کی لفٹ بھی استعمال نہیں کرتا اور سیڑھیاں چڑھ کر آتا ہوں کہیں گستاخی نہ ہو جائے۔ چیف جسٹس سے نیب کا بھی گلہ کیا کہ یہ نیب ہے جو پہلے تھا وہ اب نہیں اب نیب عیب بن چکا ہے اسے بھی دیکھیں، اسکے ساتھ ہی چیف جسٹس نے کورٹ ایسوسی ایٹ کو دوسرا کیس پکارنے کا کہا جبکہ جاوید ہاشمی روسٹرم کو چھوڑ کر کمرہ عدالت کے اندر سپریم کورٹ رپورٹرز کی مخصوص نشستوں کی طرف بڑھے اور صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اصول پرست ہو تو یہ بھی آج لکھنا اور چلانا بھی اور اسکے ساتھ ہی جاوید ہاشمی کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے، اور صحافی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا دیئے۔
کمرہ عدالت
کمرہ عدالت نمبر ایک سے....
Nov 03, 2018