ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی سیاسی بصیرت، تحمل اور برداشت کا بہت بڑا امتحان ہے۔ حالات جس طرف جا رہے ہیں اس میں شدت آئی درجہ حرارت بڑھا تو احتجاج کے نتیجے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ سیاست دانوں کا مقصد ہمیشہ سے احتجاج، اتفاق یا ڈیل کے ذریعے صرف اقتدار کا حصول رہا ہے۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے ہمیشہ قومی مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے حکومت گرانے اور اپنی باری کے لیے انتشار کی سیاست کی ہے۔ اس کے نیتجے میں ہمیشہ نظام کو جھٹکا لگتا رہا ہے۔ ماضی میں احتجاجی تحاریک کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس کا نقصان سیاست دانوں اور نظام کو ہی ہوا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ احتجاج کے نتیجے میں حکومتیں ختم ہوتی رہی ہیں۔ عوامی تحریک کے نتیجے میں ہی ایوب خان نے اقتدار یحیٰی خان کے حوالے کیا۔ یحیٰی خان بڑے نقصان کے بعد عوامی غم و غصہ کو دیکھتے ہوئے حکومت چھوڑ گئے۔ انیس سو ستتر میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ملک گیر عوامی احتجاج بھی تاریخ کے طالبعلموں کو یاد ہے۔ آج بھی حالات اس سے مختلف نہیں۔ یہ سوال حل طلب ہے کہ اس مرتبہ چلنے والی تحریک سے حکومت بدلتی ہے یا نہیں لیکن جو ماحول بن رہا ہے اور جس تیزی کے ساتھ پیشرفت ہو رہی ہے اور جس انداز میں احتجاج کی سیاست میں شدت آتی جا رہی ہے اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جب ملک کی اپوزیشن جماعتیں کسی ایک جماعت کے پیچھے کھڑے ہو کر حکومت کو گرانے کا کھیل کھیلنا شروع کر دیں تو سب سے زیادہ خطرہ جمہوری عمل کو ہوتا ہے۔
ہمیں اندازہ تھا کہ مولانا کے ارادے کیا ہیں، اب انہوں نے اظہار بھی کر دیا ہے، ہر روز وہ ایک نیا مطالبہ کریں گے، ہر روز وہ ایک نیا فلسفہ پیش کریں گے، ہر روز وہ انتشار کی سیاست کریں گے، ان کو سننے والوں میں اگر برداشت کی کمی ہوئی، لوگ بگڑ گئے، بپھر گئے تو پھر وہ بکھریں گے نہیں پھر خدانخواستہ وہ ہو سکتا ہے جسکی خواہش کوئی نہیں رکھتا۔ مولانا فضل الرحمان کے لہجے میں شدت آتی جا رہی ہے اور تلخی بھی بڑھ رہی ہے جمہوری دور میں سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات اور مذاکرات دو بنیادی چیزیں ہیں۔ فیصلوں اور پالیسی پر اختلاف ہوتا ہے اور مذاکرات کے ذریعے اختلافات اتفاق رائے میں بدلتے ہیں موجودہ صورت حال میں تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کے اہم رہنماؤں کا امتحان ہے کہ وہ اس کشیدگی کو کم کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، کیا مذاکرات اور بامعنی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے یا نہیں، کیا سب مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے احتجاج کو ختم کرنے اور نظام کی بقاء کے لیے متحد ہوتے ہیں یا نہیں، سیاست دانوں کی سب سے بڑی خوبی ہی مذاکرات کرنا، دلیل دینا، سننا اور قائل کرنا ہے اگر اس اہم وقت میں وہ ان دو بنیادی چیزوں کو کرنے میں بھی ناکام رہتے ہیں تو پھر معاملات شدید خراب ہوں گے اور خدانخواستہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔ اللہ کرے ایسی صورت حال نہ ہو اور جمہوری طاقتیں جمہوری انداز میں اختلافات کو ختم کرتے ہوئے نظام کو آگے بڑھائیں۔ بدقسمتی سے اب تک مولانا فضل الرحمان اور ان کے ساتھ شامل دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئی ایسا عمل سامنے نہیںآ یا جسے دیکھ کر یہ کہا جا سکے کہ سیاست دان اس امتحان میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔ وہ ہمیشہ کی طرح اقتدار کی سیاست کر رہے ہیں۔ دو بڑی جماعتیں اس لیے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ساتھ نظر آ رہی ہیں کہ وہ احتجاج کی ساری جگہ اکیلے جمعیت علمائے اسلام کو نہیں دینا چاہتیں، ابھی تک کھل کر احتجاج کا راستہ اس لیے اختیار نہیں کر رہیں کہ ساتھ ساتھ مستقبل کی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہیں۔ دوسری طرف مولانا کے ارادے خطرناک ہیں وہ جس انداز میں نکلے ہیں خالی ہاتھ واپس نہیں جانا چاہتے۔ وہ سیاسی جدوجہد کو سیاسی رکھتے تو زیادہ بہتر تھا اداروں کو اقتدار کی سیاست میں شامل کرنے سے معاملہ سنگین ہوا ہے۔
قارئین کرام اس احتجاج کی سیاست میں کہیں عوامی مسائل کی سیاست نظر آتی ہے۔ کہیں عام آدمی کے لیے کوئی آواز بلند ہو رہی ہے۔ عوام کرپٹ سیاست دانوں حکمرانوں کو بھگتتے بھگتتے نالائقوں میں پھنس گئے ہیں وہ لوٹ کر کھا گئے انہیں نہ لوٹا ہوا واپس لینے کی سمجھ آ رہی ہے نہ موجود فنڈز کو خرچ کرنے کا طریقہ آ رہا ہے۔ یوں دونوں صورتوں میں عوام پس رہی ہے۔ لوٹ مار، مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے عوام کسی بھی سیاست دان پر اعتماد کرنے کے حق میں نہیں۔ نہ لوگ ماضی کے حکمرانوں کے پیچھے باہر نکلے ہیں نہ موجودہ کی حمایت میں نظر آئے ہیں۔ یہی رویہ سیاست دانوں کی ناکامی ہے اور بداعتمادی کی یہ فضا سیاست دانوں کی پیدا کردہ ہے۔ موجودہ حالات کی سب سے بڑی ذمہ دار حکومت ہے جس نے اقتدار میں آنے کے بعد عوامی مسائل کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے کچھ اور ہی کام شروع کر دیے آج اگر جمعیت علمائے اسلام کے لوگ باہر نکلے ہیں اور اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتیں ان کی اخلاقی حمایت کر رہی ہیں تو اس احتجاج کی سب سے بڑی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے اگر حکومت نے کام کیا ہوتا عوامی مسائل کی نشاندہی کرنے کے بعد انہیں حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہوتے تو صورت حال خاصی مختلف ہوتی۔ حکومت اپنی ناکامی کا ذمہ دار اپوزیشن کو نہیں ٹھہرا سکتی۔
گفتگو کے دروازے بند ہوئے تو یہ سب سے بڑی ناکامی ہو گی۔ جہاں تک تعلق مولانا فضل الرحمان کا ہے تو انہیں بھی یہ سیکھنا چاہیے کہ سیاست صرف اقتدار کا ہی نام نہیں ہے۔ سیاست میں اپوزیشن بھی ہوتی ہے اور بہت دفعہ حکومتی بنچوں پر بیٹھنے کا موقع نہیں بھی ملتا جب کبھی ایسی صورت حال بن جائے تو انتظار کرنا بہتر ہے نا کہ سب اداروں کو سیاسی کھلاڑی بنانا شروع کر دیا جائے۔ مولانا کو اپنے سخت موقف پر سوچنا ہو گا کیونکہ انکی سختی سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کیا ذاتی مقاصد کے لیے ملک و قوم کا مفاد داؤ پر لگانا چاہیے اس کا فیصلہ ہمارے قارئینِ کریں تو زیادہ بہتر ہو گا۔