ڈی چوک جانا ہماری تجویز، حکومت سے جان چھوٹنے تک میدان میں رہیں گے: فضل الرحمن

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + خصوصی نمائندہ) مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ نکمے حکمران رسک بن چکے ہیں ، جب تک اس حکومت سے جان نہیں چھوٹے گی میدان میں رہیں گے ،اس میدان سے دوسرے مئوثر میدان میں منتقل ہوں گے۔ کمیٹی میں ایک تجویز ڈی چوک جانے کی بھی ہے۔ اپوزیشن قیادت جو اگلا قدم بتائے گی اس کی طرف بڑھیں گے ۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کی باتیں بھارت کا میڈیا چلا رہا ہے ۔ یہ صرف ہندوستان کا میڈیا نہیں چلا رہا بلکہ ساری دنیا کا میڈیا ہمیں دکھا رہا ۔ دعویٰ وزیراعظمی کا اور زبان گالی اور گالم گلوچ بریگیڈ ہے، تمھاری رٹ ختم ہو چکی ہے، اب ہماری رٹ ہے، مولانا فضل الرحمان نے ان خیالات کا اظہار آزادی مارچ کے اجتماع سے خطاب کر تے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ اس مارچ کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا ہے ، صرف انڈیا کی بات نہ کی جائے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مودی فضل الرحمان سے بہت خوش ہے، وہ کہتے ہیں کہ مودی بہت خوش ہے کہ عمران خان جیسا آدمی پاکستان کا وزیر اعظم ہے ، اور وہ کشمیر کو چھیننے میں کامیاب ہو گیا ہے ۔ عمران خان کی برکت سے اس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا ہے، آپ (وزیراعظم) کے ہوتے ہوئے اسے جو رعایات اور مراعات مل رہی ہیں ،جس طرح وہ کشمیر یوں کا خون کر رہا ہے ،آپ سے بڑھ کر اس کے لئے کون خوش قسمت ہو سکتا ہے، انہوں نے کہا سب سے زیادہ اضطراب اس وقت تل ابیب میں ہے،انہوں نے کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ میں ہیں ،ہر وقت سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آپ کے ساتھ فلانی جماعت ہے؟ مسلم لیگ ہے یا پی پی پی ہے ، مسلم لیگ کی ساری قیادت یہاں رہی ، بلاول بھٹو دو مرتبہ آئے ، رہبر کمیٹی کا اجلاس ہو چکا ہے ، انہوں نے کہا یہاں ڈاکٹرز ،مزدور اور وکلاء تنظیمیں موجود ہیں ، پاکستان انتہائی خطرناک دور سے گذر رہا ہے ، نکمے قسم کے لوگ حکمران ہیں ، پاکستان کے لئے رسک بن چکے ہیں ، جب سے یہ اقتدار میں آئے ہیں ، ستر سال کی حکومتوں کے قرضوں سے ان کے ایک سال کے قرضے سب سے اوپر ہیں ۔ روپے کی قیمت 160پر چلی گئی ، غریب انسان مہنگائی کی وجہ سے کرب میں ہیں ، اس کی کمر ٹوٹ چکی ہے ، ان کو جتنے اور دن ملیں گے پاکستان پستی کی طرف جائے گا ، جب تک اس حکومت سے جان نہیں چھوٹے گی اس میدان میں رہیں گے ، لوگ کہتے ہیں کہ یہاں126دن دھرنا تھا ، 126دن دھرنا ہمارے لئے کوئی آئیڈیل نہیں ہے اور نہ ہم اس کے پیرو کار ہیں، تحریک جہد مسلل کا نام ہے، ہم نے آج اور کل تک فیصلے کرنے ہیں ،اور آنے والے دنوں میں اس سے اور سخت فیصلہ کیا کر سکتے ہیں کہ اس فیصلہ سے اور اس میدان سے دوسرے مئوثر میدان کی طرف منتقل ہو جائیں ،اور اس حکومت کے خلاف تحریک کا تسلسل برقرار رہے ، ہم حالات کو بگاڑنا نہیں چاہتے ہیں، قافلوں نے اسلام آباد تک نظم کا مظاہرہ کیا ،کبھی کہا جاتا ہے کہ اجتماع میں خواتین نہیں، ہر معاشرے کی اقدار ہوتی ہیں ، ہماری خواتین کو جلسہ میں آنے سے کسی نے نہیں روکا ہے، خواتین گھروںمیں اس اجتماع میں شریک ہیں، اس کے لئے روزے رکھ رہی ہیں، ہمارے اسمبلیوں میں غیر مسلم نمائندے ہیں انہوں نے کہا کہ آپ حجت پسند ہیں اور جب بھی کوئی بات ہوتی ہے تو1947میں چلے جاتے ہو ، تم1947میں گھوم رہے ہو ہم 72سال آگے جاچکے ہیں ،آج کے پاکستان کی بات کی جائے ،آج کا پاکستان وہ نہیں جس کا تصور اقبال اور قائدا عظم نے پیش کیا تھا ، جو بات انہوں نے کی تھی ہم اس کے مطابق پاکستان کا آئین اور قانون بنانا چاہتے ہیں، تمھاری حماقتوں کی وجہ سے پاکستان تنہائی کاشکار ہے ، ہندوستان دشمن ، افغانستان ، ایران ناراض ، چین مایوس کہاں کھڑے ہیں ،کیا خارجہ پالیسی ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ میں جو پاکستان کے مستقل دوست تھے انہوں نے کشمیر کے مسئلے پر ہمیں ووٹ نہیں دیا ،کس منہ سے کشمیریوں کی بات کرتے ہو ،کشمیر کے نمائندے ہم ہیں ، انہوں نے کہا آپ خود کو وزیراعظم کہتے ہو ، وزیراعظم ہو تو زبان بھی وزیراعظم کی ہونا چاہئے‘ دعویٰ وزیراعظم کا اور زبان گالی اور گالم گلوچ بریگیڈ ہے، گالیوں اور جھوٹ بولنے کے سوا کچھ نہیں آتا ، الزام تراشیوں کے سوا کچھ نہیں آتا، طالبان جس کو آپ دہشت گرد کہتے ہیں ، صدارتی پروٹوکول کے ساتھ پاکستان میں ان کا استقبال کیا ، صدارتی پروٹوکول کے ساتھ امریکہ نے ان سے مذاکرات کئے، اجتماع میں جھنڈا لہرانے کی سازش بھی حکومت نے کی ہے ، انتظامیہ یہاں فساد پیدا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، انہوں نے کہا کہ یہ عوام پوری حکومت کے لئے کافی ہے، ابھی لوگ آرہے ہیںان کے آنے سے پہلے اجتماع کیسے اٹھا سکتے ہیں، سب سے عہد لینا چاہتا ہوں کہ تمام جماعتیں جو بھی حکم دیں گی اس پر لبیک کہیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کی بات ہوتی ہے فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابلہ میں کس نے شکست دلوائی ؟وہ لوگ ہم سے خواتین کی بات کرتے ہیں، ولی خان اور محمود اچکزئی کے والد تو فاطمہ جناح کے ساتھ تھے، ایک فوجی مرد کے مقابلہ میں ایک جمہوری خاتون کو جس طرح شکست سے دوچار کیا گیا، تاریخ کا قلم بے رحم ہو تا ہے، انہوں نے کہا کہ ہہم پر امن رہیں گے اور جو فیصلہ قیادت کرے گی،آگے کے مراحل مل کر طے کرنے ہیں کہ تسلل نہ ٹوٹے اور تحریک جہد مسلسل کا نام ہے، اس سے آگے اور میدان میں جائیں گے ،اس سے آگے اور میدان میں جائیں گے یہاں تک کہ ان ناجائز حکمرانوں کا تختہ پلٹ دیں ،ان کو یقین ہونا چاہے کہ ان کی حکومت نہیں ہے ،صرف ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر کرسی پر بیٹھنا حکمرانی نہیں ہوا کرتی ،آپ پاکستان کے حکمران نہیں ہو ، پاکستان پر تمھاری رٹ ختم ہو چکی ہے اور اب ہماری رٹ ہے اور ہم ملک کو چلائیں گے ،پرامن طور پر چلائیں گے ،قوم کے سروں سے اتر جائو، اور ہماری شرافت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائو، انہوں نے کہا کہ پوری اپوزیشن فیصلہ کرتی ہے تو یہاں رہنا ہے ،جب اگلا قدم بتائے گی تو اس کی طرف بڑھنا ہو گا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے رائیونڈ میںتبلیغی جماعت کے اجتماع میں شریک ہونے والے کارکنان کو دعا کے بعد اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کی ہے۔ اپنے ویڈیو بیان میں مولانا فضل الرحمنٰ نے کہاکہ ملک بھر سے ہمارا ساتھ دینے والے لاکھوں افراد کا ہم شکریہ ادا کر تے ہیں انہوں نے کہاکہ وہ کارکنان جو کسی وجہ سے اب تک آزادی مارچ میں شرکت نہیں کرسکے یا کسی اور وجہ سے قافلے میں شامل نہیں ہو سکے ہیں ان سے درخواست ہے کہ وہ فوری اسلام آباد کا رخ کر یں ۔ انہوںنے کہاکہ کارکنان رائیونڈ اجتماع میں شریک ہیں امید ہے وہ دعا کے بعد ہمارے قافلے میں شرکت کیلئے پہنچیں گے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے ہم نے تو کسی ادارے کا نام ہی نہیں لیا تھا۔ پاک فوج غیرجانبدار ادارہ ہے۔ اداروں کو غیرجانبدار دیکھنا چاہتے ہیں۔ خواہش کا احترام کیا جائے۔ ہم قومی اداروں کو متنازعہ نہیں بنانا چاہتے اور نہ ہی حکومتی اداروں سے کوئی تصادم چاہتے ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ان کا مزید کہنا تھا مارچ کا احترام ہونا چاہئے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی گفتگو میں مجھ سے پوچھا ہے کہ میں بتاؤں ادارے سے میری مراد کیا ہے جبکہ آصف غفور صاحب نے خود ہی وضاحت میں بتایا ہے کہ پاک فوج ہمیشہ جمہوری حکومت کے ساتھ ہوتی ہے اور الیکشن میں فوج نے قانونی اور آئینی کردار ادا کیا ہے۔ مولانا نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ پوری قوم اس حکومت کو غیر جمہوری کہہ رہی ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اس کو دھاندلی کی پیداوار کہہ رہی ہیں لہٰذا مجھ سے نہ پوچھا جائے کہ کون سے ادارے اس میں ملوث ہیں کیونکہ آصف غفور صاحب نے خود ہی اپنے بیان میں پوری تفصیل بتا دی ہے کہ میرے بیان سے مراد کون سا ادارہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت کو سپورٹ کرنے کو جمہوریت میں تو کوئی پذیرائی نہیں مل سکتی ، جبکہ دنیا میں ہمارے وزیر اعظم کو پبلک کا نمائندہ نہیں مانا جاتا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پورے ملک سے جو عوام اس آزادی مارچ میں امڈ آئی ہے اس کا احترام ہونا چاہیے اور اس احترام میں فوری طور پر حکومت کو مستعفی ہوجانا چاہیے۔ انہوں نے کہا ایسے بیانات سے نہ ہمارے عزائم تبدیل ہونگے نہ ارادے تبدیل ہونگے نہ تحریک تبدیل ہوگی۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الغفور حیدری نے اسمبلی سے اجتماعی استعفوں ، ملک کے تمام بڑے شہروں میں لاک ڈائون اور جیل بھرو تحریک کے آپشن دیتے ہوئے کہا ہے کہ حتمی فیصلہ رہبر کمیٹی کریگی، تمام اپوزیشن جماعتیں آزادی مارچ کا حصہ ہیں، ہمارا قومی سطح کا مطالبہ ہے۔ آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبد الغفور حیدری نے کہاکہ ہمارا واسطہ ایک نااہل حکومت سے پڑا ہے، ہم نے بہت سی مشکلوں کا سامنا کیا ہے لیکن ایسی آمریت نہیں دیکھی، آزادی مارچ کا دوسرا روز ہے، ان کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم مستعفی ہو۔ انہوں نے کہاکہ ہم کہتے ہیں ہمارے ادارے جانبدار ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہم اپوزیشن جماعتیں سیاسی ہیں‘ سیاسی انداز میں عمران سے لڑنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے بیان نہیں آنا چاہیے تھا ، آپ کو سرحد پر توجہ دینی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان آپ کو قوم کے فیصلے کو ماننا اور جھکنا پڑے گا۔ انہوں نے کہاکہ ہم شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی کرا سکتے ہیں اور ڈی چوک بھی جا سکتے ہیں، ہمارے سربراہ جو فیصلہ کریں گے ان پر من و عن عمل کیا جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔ معاہدے کی خلاف ورزی ان کی طرف سے ہو رہی ہے۔ مزید برآں آزادی مارچ و دھرنے کے تیسرے روز بھی قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتا ب احمد شیر پاو، جے یو آئی کے مرکزی رہنما مولاناگل نصیب، علامہ ابتسام الہی ظہیر،علامہ راشدمحمود سومرو، اسلام آباد کے ضلعی امیر مولانا عبدالمجید ہزاوری، جنرل سیکرٹری، مفتی عبداللہ وفاق المدارس العربیہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل، قاضی عبد الرشید کراچی کے رہنما قاری عثمان سمیت دیگر رہنمائوں اورعلما نے خطاب کیا قبل ازیں مولانافضل الرحمن نے اپنے ویڈیوپیغام میں کہاکہ جو لوگ کسی بھی وجہ سے آزادی مارچ میں شرکت نہیں کرسکے یا انہیں ٹرانسپورٹ نہیں ملی اب بھی وقت ہے ہم اسلام آباد میں ہیں وہ از سرِنو کوئی بھی ذریعہ کرکے روانہ ہوں اور آزادی مارچ میں شریک ہوں۔ مولانا فضل الرحمن نے اپیل کی کہ جو لوگ رائیونڈ اجتماع میں شریک ہیں امید ہے وہ دعا کے بعد ہمارے قافلے میں شرکت کے لئے پہنچیں گے۔ آفتاب احمد شیرپاؤ نے کہاکہ آزادی مارچ حکومت کیخلاف ریفرنڈم ہے۔ ڈپٹی سیکرٹری جنرل وفاق المدارس العربیہ قاضی عبد الرشید نے کہا عوام ایک طرف اور حکومت دوسری طرف ہے۔ دیگر رہنماؤں کا کہنا تھا ہماری امن کی پالیسی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔
اسلام آباد (خصوصی نمائندہ) وفاقی حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے آزادی مارچ کی جانب سے تشکیل دی گئی رہبر کمیٹی نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ سے استعفے، ملک گیر شٹرڈاون، سڑکیں جام کرنے اور ملک بھر میں احتجاج زیر غور ہے۔ وزیر اعظم کے استعفی پر بات نہیں ہوسکتی تو پھر رابطے کی کوئی ضرورت نہیں ہم جمہوری لوگ ہیں، ہر وقت بات کرنے کو تیار ہیں،جبکہ اجلاس میں آئندہ کالائحہ عمل ، رہنمائوں کی تجاویزاور جمعیت علما اسلام کی طرف سے ڈی چوک جانے کی حمایت کرنے یا نہ کرنے پراپنی اپنی جماعتوں سے مشاورت کے لیے وقت مانگ لیا، آزادی مارچ سے متعلق مشاورت کے لیے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کا اجلاس جے یو آئی (ف)کے رہنما اکرم خان درانی کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔ رہبر کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر اور سید نیئر حسین بخاری، پاکستان مسلم لیگ (ن)کے احسن اقبال، امیر مقام، عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین، نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو، علامہ شاہ اویس نورانی اور دیگر شریک ہوئے۔ اجلاس میں آزادی مارچ کوڈی چوک تک لے کرجانے کے حوالے سے مشاورت کی گئی۔ رہبر کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کمیٹی کے کنوینر اکرم خان درانی نے کہا کہ اجلاس میں مختلف تجاویز زیر غور آئی ہیں اور ان تجاویز پر تمام جماعتیں تبادلہ خیال کریں گی جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ رہبر کمیٹی برقرار رہے گی حکومت سے رابطہ رکھنے پر خائف نہیں۔کل کی وزیراعظم کی تقریر دیکھیںہمارے لوگ منظم ہیں حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کی ہیں آج بھی لوگ پیدل آرہے ہیں۔ قافلے کے زخمیوں کو اسپتال داخل نہیں کیا جا رہا، تجاویز میں ہمارے استعفوں کا آپشن ہی ملک بھر میں شڑاڈائون ہڑتال کا آپشن بھی زیر غور ہے۔ ملک کی شاہراہیں بند کرنے کی تجویز آئی ہے۔ آئی ایس پی آر کے حوالے سے مولانا کا بیان کیوں نہیں چلایا وزیراعظم کے استعفے اور نئے الیکشن پر اتفاق رائے ہے۔ غیرجمہوری قوتوں نے ماورا آئین کوئی اقدام اٹھایا تو مل کر مزاحمت کریں گے۔ اکرم درانی نے کہاکہ اے پی سی کے فیصلے مطابق رہبر کمیٹی بلانے کا فیصلہ ہوا اپوزیشن جماعتوں کا اتفاق ہے۔ آزادی مارچ مقاصد استعفیٰ فوج کے بغیر الیکشن کو آگے بڑھایا جائے گا۔ ہم جمہوری لوگ ہیں ہر وقت بات کرنے کو تیار ہیں حکومت کو اپنا رویہ درست کرنا ہوگا، ہمارے زیر غور پارلیمنٹ سے اجتماعی استعفے، شٹر ڈاون سب آپشنز ہیں۔ ڈی سی سے ہونے والے معاہدے پر قائم ہیں۔ حکومت بھاگ رہی ہے، پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ پر حکومت عمل نہیں کر رہی۔ اکرم درانی نے کہاکہ تاجروں اور ڈاکٹروں کو ہڑتال کا ہم نے نہیں کہا ملک کے لوگ مجبور ہوکر نکلے تو حالات خراب ہونگے جب ان سے پوچھا گیا کہ آج شام ڈیڈ لائن پر آگے جانے کا آپشن ہے یا نہیں۔ کہا کہ شام تک اس کا فیصلہ بھی سامنے آجائے گا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے احسن اقبال، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما نیئر بخاری اور اے این پی کے افتخار حسین کے ہمرا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جو تجاویز سامنے آئی ہیں ان میں استعفے کا آپشن بھی زیر غور ہے، احسن اقبال نے کہاکہ حکومت نے ملک کی معیشت تباہ کر دی ہے تمام جمہوری قوتیں آج آپ کے سامنے بیٹھی ہیں۔ حکومت معاشی میدان میں ملکی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکی ہے۔ کرتارپور راہداری میرے حلقے میں ہے حیرت ہے وزیراعظم نے سکھ یاتریوں کیلئے پاسپورٹ کی شرط ختم کر دی ہے۔ ناروال سے پاکستان کا نمائندہ ہوں، بھارتیوں کو ہمارا وزیراعظم کیسے بغیر پاسپورٹ آنے کی اجازت دے سکتا ہے؟ کرتارپور منصوبہ میں نے شروع کیا اور ورلڈ بنک سے منظور کروایاجب ان سے پوچھا گیا کہ ڈی چوک جانے میں جمعیت علما اسلام کاساتھ دیں گے، تواحسن اقبال نے کہاکہ مسلم لیگ ن پاکستان،جمہوریت اور آئین کی حکمرانی کو آگے لے کر جائیگی، اجلاس میں سب نے تجاویز پر غور کیا گیا ہے، اپنی اپنی پارٹیوں سے مشاورت کے بعد مشترکہ لائحہ عمل پیش کریں گے، میاں افتخار حسین نے کہاکہ کرتارپور کھولتے وقت کشمیر کیوں یاد نہیں آتا؟۔ افغانستان کی جانب بھی راستے کھولے جائیں وہاں بھی تجارت کی ضرورت ہے برصغیر کی آزادی باچا خان اور علما دیوبند کی مرہون منت ہے پنجاب کا وزیراطلاعات اپنے لیڈر کے والد کی بات بھی کرے بہتر ہوگا کہ والدین کی بات نہ کی جائے باچا خان اور ولی خان کی عزت نہیں ہوگی تو ہم بھی کسی کی عزت نہیں کرینگے، نیئرحسین بخاری نے کہاکہ دھرنے پر پیپلزپارٹی کا موقف بالکل واضح ہے۔ آئندہ کا لائحہ عمل قیادت کے سامنے رکھیں گے جس پر پارٹی کی سی ای سی فیصلہ کرے گی پارٹی کا جو بھی فیصلہ ہوگا اس سے رہبر کمیٹی کو آگاہ کرینگے۔ جب ان سے پوچھا گیاکہ ڈی چوک جانے میں جے یو آئی ف کا ساتھ دیں گے، تونیئرحسین بخاری نے کہاکہ قیاس آرائیوں پرمبنی سوال نہ کریں، بات سادہ ہے کہ تجاویز آج آئی ہیں، تجاویز پر پارٹی کے اندر مشاورت کریں گے، جب فیصلہ کرلیں گے تو جواب دیں گے، مزید بات کرنی ہے تو رہبرکمیٹی کے کنوینئرسے کرلیں، دوسری جانب ذرائع نے بتایا تھا کہ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے ملاقات کا وقت مانگا تھا۔ اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے پیپلزپارٹی کے رہنما نیئر بخاری سے ٹیلیفونک گفتگو میں کہا کہ تمام مسائل مشاورت کے ذریعے بیٹھ کر حل کرنا چاہتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق نیئر بخاری نے اپوزیشن رہنمائوں سے مشاورت کے بعد صادق سنجرانی کو اس حوالے سے جواب دینے کا کہا ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ اسپیکر قومی اسمبلی اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رکن اسد قیصر نے اے این پی کے رہنما میاں افتخار کو ٹیلی فون کی اورآزادی مارچ کے خاتمے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی درخواست کی۔ مذکورہ ذرائع نے بتایا کہ اسد قیصر نے میاں افتخار کو کہا کہ آپ مدبر سیاستدان ہیں۔ صلح صفائی کے لیے کوشش کریں، جس پرمیاں افتخار نے اسپیکراسد قیصر کو تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ رہبر کمیٹی کے اجلاس کے بعد حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے بات کریں گے۔ ذرائع کے مطابق رہبر کمیٹی نے طویل عرصے پر دھرنے دینے سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہ کرسکی ۔ جے یو آئی ف کا موقف تھا انہائی سخت تھا وہ نہ صرف طویل دھرنے کیلئے اصرار کرتی رہی جبکہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اس کی حمایت کرنے سے معذوری ظاہر کردی اور کہا کہ طویل دھرنا دینا درست اقدام نہیں ہوگا۔صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ کا مارچ ڈی چوک کی طرف جائیگا ؟ اکرم درانی نے کہا کہ آپ یہ کیوں کہہ رہے ہیں اس کا فیصلہ ہم کرینگے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...