تین نااہل فارغ، فردوس عاشق اعوان کا امتحان!!!!

فیاض الحسن چوہان سے وزارت اطلاعات کا قلمدان واپس لیے جانے کی خبر سنی تو مرحوم راحت اندروی بہت یاد آئے کیا شاندار انسان اور اعلیٰ دماغ تھے۔ یہی وہ موقع ہے جس کے لیے انہوں نے لکھا تھا
جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
ان کے ساتھ دو نالائق اور بھی میدان بدر ہوئے ہیں۔فیاض الحسن چوہان وزارت کے نشے میں تھے یا حقیقت بھول چکے تھے یا بھٹک گئے تھے یا پھر کسی اور راستے کے مسافر ہو چکے تھے بہرحال واپسی ہو چکی ہے کیونکہ ایسی وزیروں، مشیروں اور حقیقت کو جھٹلانے والوں کے لیے ہی راحت اندوری نے لکھا تھا۔ یہی شعراء کا اعجاز ہے کہ مختصر الفاظ میں مکمل اور بھرپور بات کرتے ہیں۔ راحت اندوری کا شمار بھی ایسے شعراء میں ہوتا ہے۔ کیا کمال شاعر تھے، سادہ الفاظ میں اتنی شاندار باتیں کر گئے ہیں کہ لوگ دیر تک انہیں یاد کرتے رہیں گے۔ یہ عہدے، وزارتیں، بڑی گاڑیاں، شان و شوکت، مال و دولت سب کچھ عارضی ہے۔ بالخصوص حکمرانوں کے لیے یہ باتیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں کیونکہ حکمران عوام کی خدمت کے لیے ہوتے ہیں، عوام کے پیسے سے ان کا خرچہ نکلتا ہے، عوامی خدمت کے نعروں کے ساتھ اقتدار میں آتے ہیں اور پھر ایوانِ اقتدار میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ ہٹو بچو کے سائرن، سرکاری سٹاف، میڈیا میں نمایاں جگہ، انٹرویوز، تقریبات کے مہمان خصوصی طرح طرح کے فائدے سب کچھ ملا کر ایسا پیکج تیار ہوتا ہے کہ اچھا بھلا انسان بھٹک جاتا تھا یہ تو پھر فیاض الحسن چوہان تھے۔ پہلے بھی ٹیم سے نکالے گئے تھے اب ایک مرتبہ پھر ان سے وزارت اطلاعات کا قلمدان واپس لے لیا گیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں فیاض الحسن چوہان سے اہم وزارت واپس لینے کا مطلب یہی ہے کہ پنجاب حکومت ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھی۔ ملک میں سیاسی درجہ حرارت میں شدت ہے۔ بالخصوص پنجاب جہاں مسلم لیگ ن اور پنجاب حکومت آمنے سامنے ہیں ان حالات میں وزیر اطلاعات کی تبدیلی یہ خبر دیتی ہے کہ مسٹر چوہان کی توجہ اپنے کام پر نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عین بیانات کی جنگ کے وقت انہیں بیٹنگ سے واپس بلا لیا گیا ہے۔ وہ ایسی حالت میں عہدے سے ہٹائے گئے ہیں کہ افسوس کرنے کا دل بھی نہیں چاہ رہا۔ عہدوں سے چپکے رہنا، ذمہ داریوں کو بھول جانا، کام نہ کرنا اور اقتدار میں آ کر عوام کو بھلا دیا جائے تو پھر یہی ہونا چاہیے۔ حکمرانوں کی نالائقی، عوام کی بے بسی پر فرحت عباس شاہ کچھ ہوں لکھتے ہیں 
لْوٹا اور لْٹا ڈالا حکمران ٹولے نے 
ملک کو چبا ڈالا حکمران ٹولے نے
جب کبھی اٹھائی ہیں ان پہ انگلیاں ہم نے 
بیچ میں خدا ڈالا حکمران ٹولے نے 
قوم اب کہاں ہیں ہم , اک نشان ِ عبرت ہیں 
کیا سے کیا بنا ڈالا حکمران ٹولے نے 
درد ہی کمائی تھی درد ہی اثاثہ تھا  
درد آزما ڈالا حکمران ٹولے نے 
جھوٹ کی سیاست کی، ظلم کی حکومت کی 
 اور چمن جلا ڈالا حکمران ٹولے نے 
یار افراتفری سی کوئی افراتفری ہے
حشر کر بپا  ڈالا حکمران ٹولے نے 
منصفی تو کیا کرتے ایک ایک مجرم کا 
عیب ہی چھپا ڈالا حکمران ٹولے نے 
 سانپ سونگھ جانے پر دودھ میرے بچوں کا
سانپ کو پلا ڈالا حکمران ٹولے نے 
باخبر لوگ بتاتے ہیں کہ فیاض الحسن چوہان کے بارے پنجاب حکومت کو شدید تحفظات تھے۔ پنجاب حکومت ان کی کارکردگی سے خوش نہیں تھی، وہ وزیر اطلاعات کی حیثیت سے کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت کے وزیر اطلاعات ہوتے ہوئے وہ حکومت کی ترجمانی کے بجائے خود پسندی اور ذاتی تشہیر میں مصروف رہے۔ صبح سے شام تک ان کی پوری توجہ صرف اپنی ایک ویڈیو پر رہتی تھی وہ ایک ذاتی ویڈیو  پر اکتفا کرتے تھے۔ ان کی وزارت سارے دن میں اپوزیشن کے جواب میں صرف ایک ویڈیو جاری کرنے تک محدود تھی اس کے علاوہ وہ روز مرہ کے کاموں کے لیے دستیاب نہیں ہوتے تھے شاید انہیں یاد ہو گا کہ ہم نے ایک مرتبہ گمشدہ فیاض الحسن چوہان بھی لکھا تھا جس کے بعد وہ کہیں سے نمودار ہو گئے تھے۔ ایک ذاتی ویڈیو کے بعد دوسری بڑی وجہ موٹر وے سانحہ کے مرکزی ملزم عابد علی کی گرفتاری کے حوالے سے ہونے والے اجلاس کی کاروائی کو خفیہ رکھنے میں ناکامی ہے۔ اس اجلاس کی کارروائی وقت سے پہلے پہنچنے میڈیا تک پہنچنے کو بھی فیاض الحسن چوہان کی ناکامی سمجھا جاتا ہے۔ تیسری اہم وجہ چند صحافیوں کے ذریعے وزارت اطلاعات کو چلانا تھا، پنجاب حکومت کے پاس وزیر اطلاعات کے بارے یہ اطلاعات تھیں کہ وہ تین چار رپورٹرز کے ذریعے پنجاب کی وزارت اطلاعات چلا رہے تھے۔ اس حوالے سے بھی پنجاب حکومت کو شدید تحفظات تھے۔
 چوتھی بڑی وجہ اہم معاملات میں ان کی عدم دستیابی تھی وہ خود دستیاب نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کا ایک کار خاص، رائٹ ہینڈ یا لیف ہینڈ معاملات کو دیکھتا تھا۔ پنجاب حکومت یہ سمجھنے لگی تھی کہ ان کے وزیر اطلاعات ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت کی ترجمانی کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔ حکومت کو اس حوالے سے بھی خدشات تھے کہ فیاض الحسن چوہان کی توجہ وزارت اطلاعات کے بجائے ثقافتی شعبے کی ظرف زیادہ ہوتا تھا۔ اپوزیشن کو ایک جوابی ویڈیو  جاری کرنے کے بعد ان کا رجحان ثقافتی سرگرمیوں میں زیادہ رہتا تھا۔ گذشتہ 
روز بھی الحمراء  کی کسی تقریب میں موجود تھے۔ ان گلیوں میں آنا جانا ہی ان کا کل سرمایہ تھا۔ اب وہ وزیر اطلاعات نہیں رہے تو دیکھتے ہیں کہ کتنے لوگ انہیں تقریبات میں بلاتے اور فیتے کٹواتے تھے۔ اگر وہ کام پر توجہ دیتے تو کچھ نا کچھ اس صوبے کے عوام کی خدمت کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اس کے بجائے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کو اب اس فیصلے پر یو ٹرن نہیں لینا چاہیے۔ کیونکہ صوبے کے وزیر اطلاعات کے بجائے ان کا کردار ایک سیاسی جماعت کے سیکرٹری اطلاعات جیسا رہا ہے۔ 
فیاض الحسن چوہان سے وزارت اطلاعات کا قلمدان واپس لینے کے ساتھ ساتھ دو اور نالائق وزراء  مہر محمد اسلم اور زوار حسین وڑائچ کو بھی عہدے ہٹا دیا گیا ہے۔ مہر محمد اسلم کوآپریٹیو اور زوار حسین وڑائچ جیل خانہ جات کے وزیرتھے۔ یہ دونوں بھی اپنی وزارتوں میں مکمل طور پر ناکام رہے انہوں نے ملک و قوم کا وقت و سرمایہ ضائع کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا حالانکہ ان کے پاس وقت بھی تھا اور موقع بھی لیکن دونوں نے کوئی کام نہیں کیا اور بالآخر انجام کو پہنچے ہیں۔ ان کی جگہ غزین عباسی اور یاور بخاری کو وزیر بنایا جا سکتا ہے۔ فیاض الحسن چوہان کی جگہ فردوس عاشق اعوان سیٹ سنبھال رہی ہیں ان کے پاس وسیع تجربہ ہے۔ وہ مرکز میں بھی ذمہ داریاں نبھا چکی ہیں اب پنجاب آئی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ یہاں کے حالات اور اندرونی سیاست کا کیسے
 مقابلہ کرتی ہیں۔ بیان بازی میں تو انہوں نے ہمیشہ اچھے نمبر لیے ہیں موجودہ حالات میں جب حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہے فردوس عاشق اعوان نے پنجاب حکومت کی بہتر ترجمانی بھی کرنی ہے اور یقیناً اپوزیشن کو جواب بھی دینا ہے۔ جو غلطیاں فیاض الحسن چوہان نے کی ہیں یقیناً وہ نہیں دہرائیں گی۔
گذشتہ روز شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز شریف کی عدالت پیشی کے موقع پر ایک تصویر پر بحث ہو رہی ہے۔ اس عمل کا مقصد تو حکومت اور اداروں کو اتحاد کا پیغام دینا ہے کاش یہ اتحاد ملکی دولت لوٹنے کے خلاف قائم ہوتا بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ مریم بی بی اپنے چچا میاں شہباز شریف اور چچا کے بیٹے حمزہ شہباز شریف کو ایسے ہی ملی ہیں کہ گل بہت ودھ گئی اے چاچا جی ہن تسی بچانا اے۔
میاں نواز شریف کا بیانیہ ناکام ہو چکا ہے ان کی سیاسی جماعت کے لوگ اب اگلی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں کیونکہ میاں نواز شریف کے فوج مخالف بیانیے کے ساتھ چلنا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ بیانیہ صرف اور صرف ملک دشمنون کا ہے۔ میاں نواز شریف اس ایجنڈے کو بڑھا رہے ہیں۔ یہ دسمبر میں حکومت کے جانے کا بتا رہے ہیں کسے خبر کہ دسمبر میں یہ خود کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں۔

ای پیپر دی نیشن