پندرہ بیس سال پہلے پرنٹ میڈیا اتنا طاقتور تھا کہ ایک خبرلگنے سے وزیراعظم کی نیندیں اُڑ جاتی تھی۔ وزراء اعلیٰ، گورنر، پارلیمانی سیکرٹریز، ارکان اسمبلی اور تمام وفاقی صوبائی وزراء ڈرتے تھے کہ اگر کل کو دو لائنوں کی خبر بھی خلاف لگ گئی تو وہ وزارت سے ہاتھ دُھو بیٹھیں گے۔ اگر کسی کالم نگار نے حقائق بیان کر دئیے۔ حکومت کے خلاف ایک بھی معتبر کالم شائع ہو جاتا تو حکومت کے ایوانوں میں تھر تھری مچ جاتی تھی۔ سرکش بیورو کریسی بھی صرف ایک خبر سے چاروںشانے چت گر جاتی تھی۔ اگر بے نظیر بھٹو یا پیپلز پارٹی کے کسی سرکردہ سیاستدان کا انٹرویو یا بڑی خبر چھپ جاتی یا اُن کے حق میں کوئی کالم لکھ دیتا تو پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک یکلخت بڑھ جاتاتھا اور ن لیگ کی صفوں میں خوف و ہراس پیدا ہو جاتا تھا۔ اسی طرح نوازشریف، شہباز شریف، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سمیت تمام سیاسی جماعتیں پرنٹ میڈیا کے حوالے سے نہایت حساس اور فعال رہتی تھیں۔ نوائے وقت کو دہائیوں تک یہ خصوصیت حامل رہی ہے کہ اُس کی ایک چھوٹی سی خبربھی ایوان ہلا دیتی تھی۔ جناب مجید نظامی مرحوم کی شخصیت میں ایسی تاثیر اور قوت تھی کہ کبھی کو ئی صدر، وزیر اعظم، جج ، جرنیل، آئی جی، بیوروکریٹ کسی صحافی کی خبر پر معترض نہیں ہوتے تھے۔ میں اور میرے ساتھی ڈٹ کر رپورٹنگ کرتے۔ کالم، فیچر، آرٹیکل لکھتے۔ کئی بار بہت بڑے لوگوں کے انٹرویوز میں جب بڑے بڑے لوگوں نے پینترا بدلنا چاہا۔ خواہ اُن میں کوئی وزیراعظم، صدر، مشیر، گورنر، وزیراعلیٰ یا کوئی بھی بڑا ہوتا اور اپنے بیان سے منحرف ہوتا تو اُسے لینے کے دینے پڑ جاتے تھے۔ ہم ہر بار انٹرویوز ٹیپ ریکارڈر میں ریکارڈ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ہماری ویڈیوز بنتی تھیں بلکہ مجھے یاد ہے کہ میں کسی بھی سربراہ مملکت یا کسی بین الا قوامی شخصیت بلکہ کسی کے ساتھ بھی تصویر نہیں بنواتی تھی ۔ اس طرح ہمارے پاس بظاہر کوئی ثبوت نہیں ہوتا تھا لیکن ہمارے لہجے کی صداقت اور بہت سے حقائق سچائی اُگل دیتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ ’’اخلاقیات‘‘ تھی۔ ہم میں سے کوئی بھی رپورٹر تمام تر مراعات، عنایات او ر اختیارات کے باوجود ناجائز یا غیر اخلاقی فائدہ نہیں اٹھاتے تھے۔ضمیر کا سنسر ہمارے اندر رہتا تھااور رہتا ہے۔ اس طرح پرنٹ میڈیا نے اعلیٰ درجے کی اخلاقیات، تہذیب و تمدن اور علمی ادبی روایات کو فروغ دیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب نواز شریف وزیر اعظم تھے اور کھُلی کچہری قائم کر کے نواز شریف نے ایک عظیم خدمت انجام دی تھی۔ کُھلی کچہری سے ہزاروں سائلوں کو فائدہ پہنچتا تھا۔ میرے پاس بے شمار مظلوم اور دُکھیارے لوگ آتے تھے۔ میں ایک سادہ کاغذ پر اپنے دستخط کے سا تھ مظلوم کی مدد کے لئے لیٹر بھیجتی تھی اور نواز شریف کے حکم پر فوراََ اُس کا کام ہو جاتا تھا۔ درجنوں لڑکے لڑکیوں کو نوکریاں دلوائیں۔ کلثوم نواز شریف کہتی تھیں کہ وہ نوائے وقت کی ایک ایک سطر پڑھتی ہیں۔ وہ مجھے کہتی تھیں کہ عارفہ میں آپکی زبردست فین ہوں۔ مریم نواز شریف بھی میرے کالمز اور فیچر شوق سے پڑھتی تھیں اور اکثر رائے دیتی تھیں۔ شہباز شریف تو ہر خبر پر ایکشن لیتے اورکالمز کو باریک بینی سے پڑھتے تھے۔ یہی حال بینظیر بھٹو کا تھا۔ اُنکی اردو کمزور تھی لیکن اُس کے باوجود انگریزی اخباروں کے ساتھ باقاعدگی سے اردو اخبارات کا مطالعہ کرتی تھیں۔ یہی حال جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، اے این پی، وغیرہ کا تھا۔ اس لئے کسی بھی خبر یا کالم پر کارروائی کی جاتی تھی۔