فرانس دنیا کی مذہبی تقسیم کے درپے 

فرانسیسی صدر عمانویل میکخواں دنیا کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیلئے تلے ہوئے ہیں۔ مغربی دنیا نے اس کا نوٹس نہ لیا اور عمانویل اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھتے ہیں تو دنیا کو مسلم اور نان مسلم میں تقسیم ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔یہ تقسیم بین الاقوامی ہم آہنگی کو بکھیر کر رکھ دے گی۔ایسی صورتحال میں دنیا کی تباہی کیلئے ایٹم بم یا کسی وبا کی ضرورت نہیں ہوگی۔فرانس میں سکول ٹیچر نے گستاخانہ خاکے بنا کر اپنے شاگردوں کے سامنے رکھے۔ انہوں نے ابلاغِ عامہ میں دے دئیے۔ کسی اہل ایمان نے اُس بدبخت ٹیچر کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ آزادی اظہار کا واویلا کرنے والے ذرا سوچیں کیا آزادی اظہار کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کی دل آزاری میں ہی رکھا ہے۔ کسی بھی مذہب اور اسکے کے پیشوائوں کی توہین اُس مذہب کے پیروکار کب برداشت کرتے ہیں اور مسلمان تو قطعی برداشت نہیں کر سکتے۔ ناموس رسالت کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسکے نزدیک اس کے باپ، اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب اور عزیز نہ ہو جاؤں۔‘‘ فرانس میں جاری ہونیوالے گستاخانہ خاکے سامنے آنے پر عالم اسلام میں شدید احتجاج کیا گیا۔اس پرصدر میکرون نے کہا تھا کہ سیموئیل پیٹی نامی استادکو اس لیے قتل کیا گیاکہ فرانس کے مسلمان ہمارے مستقبل پر قبضہ کرناچاہتے ہیں۔ ایسی بات کوئی عقل سے پیدل شخص ہی کرسکتا ہے۔ صدرعمانوئیل میکرون نے خاکے شائع کرنے کا بھی دفاع کیا اور اسلام کے بارے میں ہرزہ سرائی کہ مذہب اسلام پوری دنیا میں ’بحران کا مذہب‘ بن گیا ہے اور اْنکی حکومت دسمبر میں مذہب اور ریاست کو الگ کرنیوالے سنہ 1905 کے قوانین کو مزیدسختی سے لاگو کریگی۔صدر میکرون گویا ایک بڑے ملک کے سربراہ ہوتے ہوئے شدت پسندی کو شہہ اور اسلامو فوبیا کو فروغ دیکر بین المذاہب کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔اس بیان نے کہ فرانس ایسے خاکے بنانا نہیں چھوڑے گا‘جلتی پر تیل کا کام کیا۔انکے اس رویے کے خلاف اسلامی دنیا میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس دوران اسلام کے دشمنوں کا چہرہ بھی بے نقاب ہو رہا ہے۔ ادھر دنیائے اسلام فرانسیسی اشیاء کا بائیکاٹ کر رہی ہے ادھر بھارت میں یہ ٹرینڈ رہا کہ سپورٹ فرانس۔ انڈیا میں کئی گھنٹوں تک دو ہیش ٹیگ پہلے اور دوسرے نمبر پر ٹرینڈ کرتے رہے: ایک ٹرینڈ 'آئی ایم ود فرانس' یعنی میں فرانس کے ساتھ ہوں جس پر 46 ہزار سے زیادہ ٹویٹس کیے گئے۔اسی بھارت میں امن پسند اور سچ کہنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ہندی زبان کے ٹرینڈ 'فرانس معافی مانگ' کے تحت ایک لاکھ 38 ہزار سے زیادہ ٹویٹس نظر آئے۔دنیا میں شدت پسند نظریات رکھنے والے لوگوں کی تعداد بہت ہے جس کا اظہار بھارت میں ہونیوالے ٹویٹس سے ہی ہوجاتا ہے۔مگر شدت پسند مائنڈ سیٹ اقتدار اور اختیار کا مالک ہو تو نفرتیں اور تعصب امن و آشتی پر اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ کہاں تک؟ جہاں جہاں ان کا اقتدارہوتا ہے اور اس سے کچھ زیادہ بھی۔ جیسے فرانس کا صدر میکخوان اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ہیں۔ ترکی کے صدر اردوان اسلامی ممالک کے سربراہان میں سب سے زیادہ اس حوالے سے شدید مخالفت کرتے نظر آئے ۔ترکی نے اپنے ملک سے فرانسیسی سفیر نکال دیا۔ اردوان نے کہا کہ 'دوسری جنگ عظیم سے قبل جس طرح یہودیوں کے خلاف مہم چلائی جا رہی تھی آج ویسی ہی مہم مسلمانوں کیخلاف چلائی جا رہی ہے۔'ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فرانسیسی صدر کے دماغ کے علاج کی ضرورت ہے۔ انھوں نے مزید کہا 'یورپی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ فرانسیسی صدر کو ان کی منافرت کی مہم سے باز رکھیں۔ مودی کی سوچ کی پرچھائیاں اسکے نامراد ساتھیوں کی زبان سے بھی عیاں ہورہی ہیں۔'بی جے پی کے ایک ترجمان تاجیندر پال سنگھ بگا نے ٹویٹ کیا ہے کہ 'بابر سے لے کر اورنگزیب تک، تغلق سے لے کر غوری، غزنوی تک، تیمور سے لیکر افضل، قصاب تک انڈیا اسلامی دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار رہا ہے۔ میں فرانس کے ساتھ ہوں۔'عمانویل میکخواں بڑی غلطی پر ہیں اور ڈھٹائی سے اْس پر ڈٹے ہوئے بھی ہیں۔ فرانسیسی وزارت خارجہ مسلمانوں سے فرانسیسی اشیاء کا بائیکاٹ ختم کرنے کو کہہ رہی خود فرانسیسی صدر نے بھی درخواست کی مگر اپنے کہے پر بھی بضد ہیں۔ فرانس کے خلاف جس طرح کا احتجاج آج ہو رہا ہے۔ ایسا منظم اور بین الاسلامی ممالک میںکبھی نہیں ہوا۔ ایک بھی مسلمان ملک اس حوالے سے پیچھے نہیں رہا۔ ترکی نے فرانس کے ساتھ تعلق ختم کر لیے،اور یہ سلسلہ طول اختیار کرسکتا ہے۔ فرنچ پریذیڈنٹ انا کے خول سے باہر نہ نکلے تو فرانس کے ساتھ تمام مسلم ممالک مستقلاً قطع تعلق کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اس حوالے سے طیب اردگان کے ساتھ مسلم امہ کو لیڈ کرتے نظر آتے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن