یہ تھا وہ ا ٓسرا جو بے آسرا مہاجروں کی آنکھوں میں چمک پیدا کر دیتا تھا۔ تقسیم عمل میں آئی تو ریڈ کلف نے مشرقی پنجاب کے مسلم اکثریتی علاقے ایک سازش کے تحت بھارت کو دان کر دیئے، بے چارے مسلمان بھرے پرے گھر چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت کے لئے مجبورہو گئے، ان میں سے اکثرکو ان کے گھروں میں شہید کر دیا گیا ، مہاجرین کے قافلوں پر بلوائی ٹوٹ پڑتے تھے اور ہر سو لاشوں کا انبار لگ جاتا تھا، جو ٹرینیں مہاجروں کو لے کر چلتیں انہیںراستے میں کاٹ دیا جاتا اور ریلوے کی پٹریوں پر شہیدوں کی لاشیں اوران کا خون بکھر جاتا تھا۔اس ناامیدی ،کس مپرسی اور قتل وغارت کے طوفان میں ایک آواز آتی کہ بلوچ رجمنٹ آگئی اور مہاجرین کے حوصلے جوان ہو جاتے۔ پھر کوئی بلوائی ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کرتا ۔ یہ بلوائی سکھ تھے، وہی جن کے لئے ہم نے آج کرتا رپور راہداری بنائی یہ ہمارا حوصلہ ہے مگر تاریخ نے دیکھا ،چشم فلک نے دیکھا،سوج اور چاند ستاروںنے دیکھا اور مارے شرم کے ان کی آ نکھیں جھک جاتی تھیں ۔ہر سو خون کے دریا دیکھتے اور سکھوں کی سفاکی دیکھتے تو خوف سے منہ چھپا لیتے۔ اس دوران اگر کوئی ڈھارس تھی تو ایک بلوچ رجمنٹ کے چند فوجی ۔
بسا اوقات ایک ہی فوجی پورے قافلے کو بحفاظت پاکستان کی سرحد کے اندر لانے میں کامیاب ہو جاتا۔یہ بلوچ رجمنٹ پاک فوج کا ہی ایک حصہ تھی جس پر ہم فخر کرتے ہیں۔ پاک فوج کے شیر گھبرو جوان آج بھی مادر وطن کے بیٹوں اور بیٹیوںکی حفاظت میں اپنی جانیں تک قربان کر دیتے ہیں۔ اور مہاجرں کو تو پاکستان بنا بنایا مل گیا، انہوںنے پاکستان آنے کے لیے قربانیاں ضرور دیں اوریہ قربانیاں ہماری قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں، ان کے خون کی حدت سے ہمارے خون میں گرمی پید اہوتی ہے۔ پاکستان، پنجاب والوں نے نہیں بنایا ۔
پنجاب میں تو جاگیر دار اور ذیلدار،وڈیرے انگریزوں کے کتے نہلاتے تھے ، یہاں یونین اسٹ بھرے ہوئے تھے، کوئی خاکسار تھا جنہوںنے قائد اعظم پر قاتلانہ حملہ بھی کیا، کوئی احراری تھا جو ہندو اور انگریز کا دم چھلہ بنے ہوئے تھے۔ کوئی دیوبندی تھاجو جو آج بھی کہتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے ان کے بڑے پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے ، ہاں ایک اہل سنت تھے جنہوںنے قائد اعظم کو کندھوں پہ بٹھایا مگر آج اسی اہل سنت کے سالار کا بیٹا انس نورانی آزاد بلوچستان کے نعرے لگاتے ہوئے ذرا نہیںسوچتا کہ اس کے والد گرامی شاہ احمد نورانی کی روح کس طرح تڑپ رہی ہو گی، پنجاب میں اہل حدیث بھی تھے جو کانگرس کے صوبائی صدر تھے۔ تو پنجاب میںپاکستان کے ساتھ کون تھا، علامہ غلام احمد پرویز کے مطابق سن چھتیس کے الیکشنوں کے لئے قائد اعظم نے انتخابی مہم چلانے کے لئے ایک بورڈ تشکیل دیا۔
اس کاپہلا اجلاس ہوا تو مولانا ظفر علی خاںنے کہا کہ یہاں توا حراری بیٹھے ہوئے ہیںِمولانا یہ کہہ کراجلاس کا بائیکاٹ کر کے چلے گئے،باقی رہ گئے احرارا ور علمائے دیو بند ، احرار نے قائد اعظم سے مطالبہ کیا کہ مہم چلانے کے لئے پانچ لاکھ روپے دئیے جائیں قائد نے جواب دیا کہ پیسے ہوتے تو بورڈ بنانے کی ضرورت کیا تھی، احرار نے بوریا بستر سمیٹا ا ور کانگرس کی انتخابی مہم جا سنبھالی۔ اب باری تھی دیو بندی لیڈروں کی۔ انہوںنے کہا کہ قائد اعظم ممبئی کے تاجروں سے الیکشن کے لئے کروڑوں روپے اکٹھے کر کے لائے ہیں، اس لئے دیوبندی حضرات نے ایک کروڑ مانگ لیا، قائد اعظم ان کا منہ دیکھتے رہ گئے کیونکہ مطلوبہ رقم نہ ملنے کے باعث دیو بندی بھی قائد کا ساتھ چھوڑ گئے۔ اس بے مائیگی میں مسلم لیگ نے الیکشن تو لڑا مگر پنجاب اسمبلی میںمسلم لیگ کے ٹکٹ یافتہ دو حضرات منتخب ہوئے ایک ملک برکت علی اور دوسرے راجہ غضنفر علی خان ۔
راجہ صاحب نے اسمبلی میں پہنچ کر کانگرس کی حلیف یونین اسٹ حکومت میں شمولیت اختیار کر لی اور یوں چھتیس سے لے کر چھیالیس تک پنجاب اسمبلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی نمائندگی کے لیے واحد رکن ملک برکت علی موجود رہے۔قائد اعظم کی پنجاب میں بے چارگی کا قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا، چھیالیس کے الیکشن ہوئے تو انگریزوں نے یونین اسٹوں کو اشارہ کر دیاکہ ہم تو جا رہے ہیں اورتمہارے لیئے بہتر ہے کہ مسلم لیگ جوائن کر لو تاکہ پاکستان بنے تو پنجاب کی پگ آپ کے سرسجے، یہ پہلا بڑے پیمانے پرلوٹا پن کا مظاہرہ تھا۔ کہنے کو توچھیالیس کے الیکشن مسلم لیگ نے جیت لئے مگر قائد اعظم نے پنجاب سمبلی کے لیے ملک برکت علی جیسے مخلص اور پرانے ساتھی کو اسپیکر شپ کے لئے نامزد کیا، اسمبلی میں ووٹنگ ہوئی تو سبھی یونین اسٹوں نے جونئے نویلے مسلم لیگی بنے تھے، قائد اعظم کی حکم عدولی کی اور ملک برکت علی کوووٹ دینے کے بجائے ایک سکھ کو پنجاب اسمبلی کا اسپیکر بنوا دیا۔کبھی جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگتا ہے، کبھی تیری پگ نوں لگ گیا داغ کا نعرہ لگتا ہے اور کبھی گریٹر پنجاب کا نعرہ لگتا ہے۔
یہ نعرے لگانے والے میں اپنا ماضی دیکھیں اور پھر اس فوج کے خلاف دھاڑیں جس کی بلوچ رجمنٹ کاایک ایک فوجی مہاجروں کو سکھوں کے چنگل سے نکال کر بحفاظت پاکستان پہنچاتا تھا۔ تب ایک نعرہ امید کی کرن اور واحد سہارا تھا کہ بلوچ رجمنٹ آ گئی، بلوچ رجمنٹ آ گئی۔
٭…٭…٭