کچھ دنوں میں وطن عزیز میں املاک اور جانی نقصان ہوتے ہوئے دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا تھااور صرف میرا ہی نہیں بلکہ ہر پاکستانی کا خواہ سفید کپڑے پہنے ہوئییا خاکی ،سر پر جناح کیپ رکھنے والے مفتی سے لیکر امامہ باندھنے والے مولوی کا ہو یا پھر شہری کا جن کا دل ہمیشہ لبیک یا رسول اللہ کیلئے دھڑکتا ہے اور انشااللہ دھڑکتا رہے گا۔ایسا دل رکھنے والے ہم سب کے لئے کسی ناخوشگوار واقعے سے پہلے معاہدہ ہونا خوش آئند ہیاورجوش پر ہوش کا غالب آنابھی۔کیونکہ ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ انتشار میں پاکستان کا فائدہ نہیں ہے۔اس ملک کی مثال اس تسبیح کی مانندہے خدا نخواستہ اس کی مالا ٹوٹی تو تمام موتی بکھر کرالگ الگ ہاتھوں میں چلیں جائیں گے اور یہ ہاتھ اسی دشمن کے ہاتھ ہیں جو مالا کو پکڑ کر کھینچنا اور توڑنا چاہتے ہیں۔یقیننا یہ ہاتھ ملک دشمن قوتوں کے اور ایک سے زائد ہیں۔ذرا سوچیے کیا ہم بھارت کے زیر تسلط جموں وکشمیر کے مسلمانوں اور دیگر انڈین ریاستوں میں رہنے والے مسلمانوں کی طرح زندگی گزارسکتے ہیں ۔جنہیں نہ مذہبی عقائد اور نہ فقہی عقائد منانے کی آزادی ہے اور دیگر شعبہ جات میں نہ ہی ان کو آبادی کے تناسب سے ریاستی کوٹہ وحقوق حاصل ہیں۔انہی سب حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ اقبال ؒ نے مسلمانوں کے لئے الگ ریاست کا تصور پیش کیا اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے دوقومی نظریہ پیش کیا اور الحمدللہ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس خانوادے کا حصہ ہوں جس نے دوقومی نظریے کی نہ صرف شروع دن سے حمایت کی بلکہ تحریک کے دوران اپنے افراد کی شہادتیں بھی دیں لیکن پیچھے نہیں ہٹے اور انگریز سرکارکے تسلط کے خاتمے کے بعد بھی مسلمانوں کے خاندان کو بحفاظت پاکستان روانہ کرنیکے لئے ہندووں اور سکھوں کے ساتھ بھی جان لیوا بلووں میں لڑائی لڑی۔بھارت کی دو ریاستوں نابہ اور پٹیالہ سے مسلمانوں کے خاندانوں کے افراد اور ان کی عزتوں کو بحفاظت پاکستان پہچانے کیلئیجاری قتل عام میں لڑائی لڑی اور کئی خاندانوں کو محفوظ مقام پر پہنچانے میں کامیاب ہوئے کئی ہفتوں بعدمیرے خاندان کو میرے داداشہید ملک شہزاد بھٹہ کی شہادت کی خبر پاکستان میں ملی اور ایک پیغام رساں کے ہاتھ اس جملے ساتھ کہ یہ لو اپنے سورما کے خون آلود کپڑے اب دیکھتے ہیں تم اور تمہاری عورتیں اب ہم سے کیسے بچ کر پاکستان جاتے ہیں۔ان ستر سال میں پاکستان میں قیام کرنے والی میں دوسری نسل سے تعلق رکھتا ہوں اور آگے ہماری تیسری نسل سے '۔میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے خاندان نے پاکستان بنانے کی جدوجہد میں حصہ لینے اور پاکستان میں قیام کادرست فیصلہ کیا اور مجھے اپنے خاندان کے ان نڈر سپوتوں پر بھی فخر ہے جنہوں نے مسلمانوں کے لئے اس وقت خدمات کرتے ہوئے جام شہادت پایا۔لیکن آزاد ریاست میں پوری آزادی کے ساتھ مذہبی عقائد منانے کے باوجود میں دشمن کے ناپاک عزائم سے غفلت نہیں برت سکتا کیوں کہ میری اگلی نسلوں کی ا?زادی اورپرامن پاکستان کے قیام کے لئے ضروری ہے ۔شاید اسی لئے میری فکر میں اضافہ ہوجاتا ہے اور مجھے سخت تکلیف پہنچتی ہے جب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس کی آزادی اور امن پر وار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینے والادشمن اپنی جگہ ابھی تک موجود ہے۔اس کو اور بھی تقویت ملتی ہے جب ملک کے اندر دو پاکستانی اور مسلمان گروہ خواہ وہ مذہبی ہوں ،سیاسی ہوں ،یا کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں لڑائی کے لئے آمنے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
میں سخت افسردہ ہوں کہ میرے ملک کے لوگوں کو ابھی تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اب جنگیں صرف بندوقوں اور توپوں سے ہی نہیں جیتی جا سکتیں ۔حالانکہ یہ بہت قریب سے ایک سپر پاور کے ٹکڑے دیکھ چکے ہیں اور دوسری کے دیکھ رہے ہیں۔اسلحے کی زور پر جنگ جیتی جا سکتی تو روس اور امریکہ افغانستان میں کبھی ہار نہ مانتے اور واپس نہ جاتے۔روس کے ٹکڑے ہوئے تو کمزور معیشت ہونے کے باعث اور آج 2021میں اگر امریکہ بھی پڑوسی ملک سے فوج کو واپس لیکر گیا ہے تو اپنی کمزور ہوتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے کے لئے اور اگر ایسا نہ کرتا تو روس سے زیادہ ٹکڑے ہونے کاخدشہ بڑھ رہا تھا جو تاحال موجود ہے۔اب آپ خود سوچیں کہ پاکستان کسی بھی ایسی لڑائی کا متحمل ہوسکتا ہے جس میں ایک طرف ریاست اور اس کے ادارے ہوں اور دوسری طرف پاکستانی شہریوں پر مشتمل گروہ ہو۔ریاستی حکمرانوں اور کسی بھی گروہ کے درمیان تصادم سے ملک کو صرف نقصان ہی نقصان پہنچے گا فائدہ اس دشمن کو ہوگا جو اس خوبصورت تسبیح کو توڑ کر اس کے دانوں کوبکھیرنے اور اپنے ہاتھ سے دبوچنے کے لئے بیقرار ہے ۔خدا را جوش پر ہوش کو غالب لائیں دھرنیدے کر اور لانگ مارچ کرکے ملکی معیشت کومزید کمزور کرنے کا یہ سلسلہ بند کریں۔ ابھی اس بحث میں پڑے بغیرکہ حکومت اور تحریک لبیک پاکستان نے احتجاج کا جمہوری طریقہ اپنایا اور پھر احتجاج کو موخر کرنے کے لئے تیسری بار مذاکرات کا راستہ اپنایا اور حکومت کو مہلت دے کر عوامی نمائندوں کا احترام کیا یہ باتیں کسی کالعدم تنظیم میں نہیں بلکہ سیاسی پارٹی میں ہوا کرتی ہیں میں سے کون جیتا اور ہارا؟کی بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ اطراف سے ہونے والی غلطیاں کو بھلا کر ان کے ملکی سالمیت کے مفاد عامہ میں کیا جانیوالے فیصلہ کی کھلے دل سے حمایت کی جائے اور ان کے درمیان طے ہونے والامعاہدہ جس کے مطابق فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کے معاملے پر اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کی سربراہی وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کریں گے جبکہ وزیر قانون پنجاب، سیکرٹری وزارت داخلہ اور سیکرٹری داخلہ پنجاب کمیٹی کے رکن ہوں گے جبکہ تحریک لبیک کی جانب سے مفتی غلام غوث بغدادی اور حفیظ اللہ علوی اس کمیٹی کے رکن ہوں گے، کمیٹی آج ہی سے فعال ہو جائے گی اور اپنا کام شروع کر دے گی۔تنظیم آئندہ کسی لانگ مارچ یا دھرنے سے گریز کریگی اور آئندہ بطور سیاسی جماعت سیاسی دھارے میں شریک ہوگی۔ گرفتار کارکنوں کو رہا کر دے گی تاہم دہشت گردی سمیت سنگین مقدمات کا سامنا کرنے والے کارکنوں کو عدالت سے ریلیف لینا ہوگا۔ معاہدے پر تنظیم کی جانب سے مفتی منیب الرحمان نے بطور ضامن معاہدے کیلیے کردار ادا کیا جب کہ حکومت کی جانب سے شاہ محمود قریشی، اسد قیصر اور علی محمد خان نے معاہدے پر دستخط کیے ہیں کوزیادہ سے زیادہ سراہا جانا چاہیے کیونکہ تحریک لبیک نے جس طرح مذاکرات کے ذریعے بات مانی یہ واقعی لائق تحسین ہے اور ان کے اس اقدام کے عوام میں یقیننا مثبت اثرات مرتب ہونگے۔آخر میں سعد رضوی، مذاکراتی کمیٹی کے رکن و سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی ،مفتی منیب الرحمان، حکومتی وفد میں شاہ محمود قریشی، اسد قیصر اور علی محمد خان , نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اراکین ،وزیراعظم اور آرمی چیف کا عوام کی جانب سے میںشکریہ اداکرتا ہوں کہ انہوں نے ملک کوبڑی تباہی کی طرف جانے سے بچالیا۔