مملکت خداداد اس وقت سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے وقت کے ساتھ ساتھ بحران کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ منافقانہ پالیسیوں اور ذاتی سیاسی مفادات نے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وقت کا پہیہ ماضی کی تاریخ کو دھرانے پر تلا ہوا ہے محب وطن حلقے تواتر کے ساتھ موجودہ حالات کو1970کی صورت حال سے تشبیح د ے ہیں اقتدار کے حصول کے لئے کی جانے والی کوششیں بھی کافی حد تک ملتی جلتی ہیں- قومی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر محض اقتدار کو منزل بنانے اور اس کے حصول کی کوششیں کرنے والے آج بھی عوام کے حافظے کا امتحان لینے میں مصروف ہیں ۔سیاست دانوں کی باہمی سر پٹھول کے باعث حالات نارمل ہونے کے بجائے مزید کشیدگی اور گرما گرمی کا شکار ہورہے ہیں-ملک میں گروہی اور ذاتی مفادات کو اہمیت دی جارہی ہے-مذہبی انتہائی پسندی کے ساتھ سیاسی انتہاء پسندی اپنے عروج پر ہے-ملک کو موجودہ صورت حال سے کیسے نکالا جاسکتا ہے کسی کے پاس اس کا کوئی حل نہیں' بیان بازی کے ذریعے معاملات چلانے کی کوشش کے نتیجے میں معاشی و سیاسی بحران اور اندرونی وبیرونی خطرات بڑھتے جارہے ہیں-قوموں کی تاریخ بڑی بڑی تلخیوں سے بھری ہوئی ہے مگر ایسا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی قوم اس قدر نفاق اور انتشار کا شکار ہوجائے کہ جھوٹ اس کی شناخت بن جائے- ملک میں مذہبی' سیاسی' معاشی' معاشرتی' تعلیمی' قانونی اور آئینی ابتری کا جائزہ لیں تو ارض پاک کا چپہ چپہ چیختا ہوا نظر آرہا ہے۔
پاکستان میں جاری ٹکرائو کی کیفیت کو سیاسی بحران کی نظر سے دیکھنے والے دانش ور' تجزیہ نگار بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں یہ بحران ہر گز سیاسی نہیں بلکہ ریاستی سطح پر موجود ایک بہت بڑے بحران کی نشاندہی کر رہا ہے اس بحران کا علاج اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم مسائل کا باریک بینی جائزہ اور حقائق کو مد نظر رکھ کر ان کی درست تشخیص کریں گے جو علاج ہم بحران کو ٹالنے کے لئے کر رہے ہیں وہ کسی بھی قیمت پر مطلوبہ نتائج نہیں دے گا بلکہ اس علاج کے نتیجے میں خدانخواستہ ملک کسی نئے امتحان سے بھی دوچار ہوسکتا ہے-
سابق وزیر اعظم عمران کا لاہور سے شروع ہونے والا حقیقی آزادی مارچ انتہائی سست رفتاری مگر بھرپور عوامی تائید کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے اور تحریک انصاف کی قیادت کا کہنا ہے کہ مارچ کو وفاقی دارالحکومت پہنچنے میں8سے دس دن لگیں گے -حکومت کی جانب سے مارچ کی سست رفتاری پر شدید تنقید کی جارہی ہے وزراء کا یہ دعوی کہ عوام کی اکثریت کے ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے لانگ مارچ شارٹ مارچ میں تبدیل ہوچکا ہے خود کو تسلی دینے اور سیاسی بیان بازی سے زیادہ کا حامل نہیں۔ آزادی مارچ کو سست رفتاری کے ساتھ آگے بڑھانے کی یوں تو بہت سی وجوہ ہیں مگر بنیادی وجہ مفاہمت کی کسی بھی کوشش کو کامیاب بنانا ہے سابق وزیر اعظم کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ اگر آزادی مارچ جڑواں شہروں کے دامن میں پہنچ گیا تو پھر مارچ میں شامل شرکاء کو کنٹرول کرنا بڑا مسئلہ بن سکتا ہے اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ نئے انتخابات کا مطالبہ ان کے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے مان لیا جائے بادی النظر میں سابق وزیر اعظم کا یہ مطالبہ نہ تو غیر آئینی ہے اور نہ غیر جمہوری… عمران خان اس وقت اپنی مقبولیت کی انتہاء پر ہیں ان کے بیانیہ نے عوام بالخصوص نوجوان نسل کو آتش فشاں بنا دیا ہے25مئی کے لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد عمران خان بڑے سوچ وبچار کے ساتھ کوئی انتہائی قدم اٹھانا چاہتے تھے اور کسی ایسے موقع یا واقعہ کی تلاش میں تھے جس کا فائدہ اٹھا کر وہ قوم کے غم وغصے کو فورا کیش کرواسکیں ارشد شریف کی کینیا میں ناگہانی موت نے انہیں یہ موقع فراہم کردیا۔
نصف صدی سے پاکستان میں آئین کی بالادستی، جمہوریت اور عوام کی خیر خواہی کے جھوٹے سیاسی نعروں پر آئین کیساتھ جو منافقت کی جارہی ہے، اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج 75 سال بعد بھی بھرپور وسائل اور صلاحیتوں کی حامل مملکت اپنے قیام کی شاندار تاریخ کے باوجود بڑے سیاسی واقتصادی بحران کا شکار ہے ملک کو پورا سیاسی وسماجی ڈھانچہ جملہ مہلک امراض میں مبتلا ہے اور اس کی بنیادیں بھی ہلنے لگی ہیں- ارض پاک اس وقت اندرونی وبیرونی سازشو ں کا شکار ہے دشمن بڑے اور دیرپا مذموم نتائج حاصل کرنے کے لئے گھات لگائے بیٹھا ہے ملک میں ا یک بار پھر جاری ٹکرائو کی کیفیت بہت حساس ہے وقت تیل اور تیل کی دھار دیکھنے والا نہیں-
سیاسی اختلافات' تحفظات اور مسائل کو ایک بڑی سیاسی دشمنی میں بدلنے کا نتیجہ اس وقت پوری قوم کے سامنے ہے مسئلہ محض عمران خان تک محدود نہیں بلکہ بعض وزرا بھی محاذ آرائی کو بڑھانے میں اپنا بھر پور کردار اداکر رہے ہیں ۔ حکومتی وزراء اس حقیقت کو فراموش نہ کریں کہ یہ80اور80کی دہائی نہیں بلکہ ہم2022میں کھڑے ہیں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آزادی مارچ کو طاقت کے زور پر روکا یا ختم کیا جاسکتا ہے وہ غلط فہمی کا شکار ہے!
اب بھی وقت ہے اقتدار کے تمام سٹیک ہولڈرز معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ نئے انتخابات ہیں چاہے وہ فوری ہوجائیں یا اپنے مقرر وقت پر ہوں اس سے بھی بڑھ کر مسئلہ انتخابات کی شفافیت اور بڑی طاقتوں کی عدم مداخلت سے جڑا ہوا ہے اس اہم نکتے کو بنیاد بنا کر ہم بات چیت کے عمل کو نتیجہ خیز بنا سکتے ہیں ۔تحریک انصاف حکومت کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے مولانا فضل الرحمن کو اس وقت مارچ اور دھرنے کے دوران سہولت فراہم کی جب اقتدار میں آئے چند ماہ گزرے تھے۔ علاوہ ازیں رو اں برس مارچ میں پیپلز پارٹی پی ڈیم اے کے لانگ مارچ کے دوران بھی حکومت نے کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی- وفاقی اتحادی حکومت کو بھی تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو طاقت کے ذریعے روکنے اور معاملات کو بگاڑنے کے بجائے جمہوری انداز میں دانش مندانہ فیصلے کرنے چاہئیں -