سست رو لانگ مارچ، نیوٹرل ایمپائر کا انتظار 


اپنی زندگی کی تین دہائیاں صحافت کی نذر کردینے کے بعد یک سطری سبق سیکھا ہے تو محض اتنا کہ سیاسی منظر نامہ پر جو دھوم دھڑکا نظر آرہا ہوتا ہے محض فریب ہوتا ہے۔اس کے پیچھے ہماری اشرافیہ کے مختلف گروہوں کے مابین جو حقیقی چپقلش جاری ہوتی ہے اس کی بابت میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی قطعاََ بے خبر ہوتے ہیں۔جو نتیجہ میں نے طویل تجربے سے اخذ کیا ہے اس کو درست ثابت کرنے کے لئے پاکستان کی تاریخ سے کئی حوالے بھی دے سکتا ہوں۔میرے عزیز ترین دوست بھی اگرچہ مصر رہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی بدولت ہمارے ذہنوں پر چھائے ہیجان کے دور میں لوگ ”تاریخی حوالوں“ سے اُکتا جاتے ہیں۔قارئین کی توجہ درکار ہے تو محض ”حال“ تک محدود رہا کروں۔
اپنے خیرخواہوں کی ہر رائے کو میں بہت توجہ اور احترام سے زیر غور لاتا ہوں۔اس کے باوجود آج کے کالم کی تمہید میں جو دعویٰ کیا ہے اسے واجب ٹھہرانے کے لئے یاد دلانا چاہوں گا کہ اپریل 2007 ءکاآغاز ہوتے ہی ہمارے ہاں ”عدلیہ بحالی کی تحریک“ شروع ہوگئی تھی۔ہم پاکستانیوں کی اکثریت اس کی بابت بہت شاداں محسوس کرتی رہی۔ ہم نے امید باندھ لی کہ افتخار چودھری کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر بحالی کے بعد ہماری ریاست واقعتا ”ماں کے جیسی“ ہوجائے گی۔ بالآخر چودھری صاحب اپنے منصب پر بحال بھی ہوگئے۔ ہم بدنصیبوں کے لئے ”ریاست“ مگر سوتیلی ماں جیسا سلوک ہی کرتی رہی۔ فرزند افتخار چودھری نے اگرچہ اپنے والد کی شفقت سے زندگی سنوارلی۔
”عدلیہ بحالی تحریک“ کا مگر اب غور سے جائزہ لیںتو بآلاخر سمجھاجاتا ہے کہ مذکورہ ”تحریک“ کا حقیقی ہدف جنرل مشرف کو اقتدار سے فارغ کرنا تھا۔”ریاست“ کو ”ماں کے جیسی“ بنانا ہرگز مقصود نہ تھا۔امریکہ ا ن کی بے پناہ پشت پناہی کے باوجود ستمبر2006ءسے اس شک میں مبتلا ہونا شروع ہوگیا تھا کہ جنرل مشرف ان کے ساتھDouble Game(ڈبل گیم)کھیل رہے ہیں۔پاکستان اگرچہ امریکہ کے ساتھ افغان کے خلاف برپا کی جنگ میں تعاون فراہم کرنے کی وجہ سے شدید ترین دہشت گردی کی زد میں آچکا تھا۔ہزاروں کی تعداد میں ہمارے بے گناہ شہری اس کا نشانہ بنے۔حالانکہ مشرف صاحب کا ”مادر ادارہ“ بھی اس کی تپش سے محفوظ نہ رہ پایا۔ ہماری حکمران اشرافیہ پر وہ ”بوجھ“ تصور ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ”عدلیہ بحالی کی تحریک“ اس ”بوجھ“ سے نجات پانے کے کام آئی۔
رواں ہفتے کی 28اکتوبر سے عمران خان صاحب اسلام آباد پر ایک اور ”یلغار“کے لئے لاہور سے ”لانگ مارچ“ کی صورت روانہ ہوچکے ہیں۔لانگ مارچ کے افتتاحی روز انہوں نے 4نومبر تک اسلام آباد میں داخل ہونے کے ارادے کا اظہار کیا تھا۔ اب وہ تاریخ بڑھاد ی گئی ہے۔ باور کیا جارہا ہے کہ وہ غالباََ اسے مزید ایک ہفتے تک ٹالتے ہوئے گیارہ نومبر کو اسلام آباد میں آئیں گے۔
عمران خان صاحب نے لاہور سے اسلام آباد تک کے سفر کو آٹھ دنوں تک پھیلایا تو ملکی سیاست کا دیرینہ طالب علم ہوتے ہوئے میرا ماتھا اس کی بابت ٹھنکا۔ میں نے اس ضمن میں قیاس سے کام لیتے ہوئے ہماری تاریخ میں 1993ءمیں ابھرے ”کاکڑ فارمولا“کا تذکرہ شروع کردیا۔میرا قیاس درست تھا یا نہیں مگر اب یہ گماں ہورہا ہے کہ ”کاکڑفارمولا“ جیسی کوئی شے موجودہ حالات میں نمودار ہوتی نظر نہیں آرہی۔
اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں عمران خان صاحب کے ”لانگ مارچ“ کا معروضی جائزہ بھی ممکن نہیں رہا۔اگر آپ عمران خان صاحب کے حامی ہیں تو مذکورہ مارچ کے ذریعے تحریک انصاف کے قائد نواز شریف اور ان کی جماعت کے لاہور کو راولپنڈی سے ملانے والی جی ٹی روڈ کے درمیان موجودہ شہروں اور قصبات پر ”اجارہ“ کو پاش پاش کرتے دکھائی دیں گے۔ عمران خان صاحب سے نفرت آپ کو مسلسل یہ سوال اٹھانے کومجبور کرے گی کہ یہ کیسا ”لانگ مارچ“ ہے جو شام ڈھلتے ہی ”اختتام پذیر“ہوجاتا ہے۔اس کے قائد آرام فرمانے جلسے سے خطاب کے بعد زمان پارک لاہور میں اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔”صحافیوں“ سے البتہ توقع یہ باندھی جارہی ہے کہ وہ مذکورہ مارچ کو ”نئی تاریخ“ بناتا ہوا دکھائیں یا اسے ”ٹھس“ ہوا ثابت کریں۔ضرورت سے زیادہ غور وفکر کی عادت کے سبب میرا ذہن ایسے سوالات کے یک لفظی جواب دینے کے قابل نہیں رہا۔عمر کے آخری حصے میں داخل ہوجانے کے بعد ذہن ویسے ہی چست وتوانا نہیں رہتا۔
اپنی کم مائیگی کے اعتراف کے باوجود مصر رہوں گا کہ عمران خان صاحب کا ”لانگ مارچ“ آپ کو اپنے ذہن میں موجود تعصبات کی بدولت ”کامیاب“ یا ”ٹھس“ ہوا نظر آئے تب بھی اس سوال کا جواب ڈھونڈنا لازمی ہے کہ دانستہ طور پر سست رو بنائے ”لانگ مارچ“ کا حقیقی ہدف کیا ہے۔نظر بظاہر اس کا مقصد وزیر اعظم شہباز شریف کو فوری انتخاب کی تاریخ دینے کو مجبور کرنا ہے۔فی الوقت وہ اس کے لئے آمادہ ہوئے نظر نہیں آرہے۔ فرض کیا وہ آمادہ ہونے کو مائل ہونا بھی شروع کردیں تو لندن میں مقیم ان کے بڑے بھائی نے ایک ٹویٹ کے ذریعے جارحانہ پیغام دے دیا ہے کہ ”جتھے“ سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ حکومت میں شامل کم از کم دو بڑی سیاسی جماعتوں کی بھی یہ ہی سوچ ہے۔ 
حکومت میں بیٹھی جماعتیں اپنے مو¿قف پر ڈٹی رہیں تو عمران خان صاحب کو یقینا کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ جو ”نیوٹرل“ ہوئے ”ایمپائر“ کو متحرک ہونے کو مجبور کرے۔ ”ایمپائر“ کو تاہم رواں مہینے کے آخری ہفتے کا انتظار بھی کرنا ہے۔ اس ہفتے ”تعیناتی“ کے تناظر میں اہم ترین فیصلہ ہونا ہے۔عمران خان صاحب کی حقیقی ترجیح تو یہ تھی کہ وہ موجودہ وزیر اعظم کو مذکورہ تناظر میں ”بے اختیار“ بنادیں۔ ابھی تک وہ یہ ہدف حاصل نہیں کر پائے ہیں۔معاملہ لہٰذا ”وقت کم اور مقابلہ سخت“ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اپنے لانگ مارچ کی بدولت عمران خان صاحب اپنے لئے نام نہاد ”فیس سیونگ“ حاصل نہ کر پائے توہر صورت اسلام آباد پہنچنے کو ڈٹ جائیں گے جو ”فیس سیونگ“ کے بجائے ”شوڈاﺅن“ کی جانب لے جائے گا۔اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے اپنی تاریخ سے حوالے دینے کو مجبور ہوجاﺅں گا اور میرے خیرخواہ دوست سمجھاتے چلے جارہے ہیں کہ ”تاریخی حوالوں“ سے بوجھل ہوا کالم لکھنے والے کو لائیکس اور شیئرز نہیں دلواتا۔

ای پیپر دی نیشن