ترکی (اب ترکیہ) میں ہوا کیا تھا، ہمارے پی ٹی آئی کے باخبر حضرات کو معلوم ہی نہیں۔ یہ بات لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ان دنوں یہ حضرات بلا کسی تشبیہ کے ترکی کے اس مارشل لاءکا ذکر کرتے ہیں جو 2016ءمیں لگایا گیا اور بقول ان کے عوام نے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر اسے ناکام کر دیا۔ ترکی ہمارا دوست ملک ہے لیکن اس کے بارے میں ہماری معلومات اتنی بھی نہیں جتنی بھارت کے بارے میں ہیں۔ ترکی میں مارشل لاءلگا ہی نہیں تھا اور جو بھی واردات ہوئی وہ عوامی مزاحمت کی وجہ سے ناکام نہیں ہوئی، کہانی کچھ اور ہے۔ مارشل لاءنہیں، ترک فوج کے افسروں اور جوانوں کے ایک اقلیتی دھڑے نے بغاوت کی تھی جو خود فوج نے مسترد کر دی۔ اس اقلیتی دھڑے کا تناسب 2 فیصد سے بھی کم تھا، باقی 98 فیصد فوج حکومت کے ساتھ تھی۔
اقلیتی دھڑے نے دھوکہ بازی کرتے ہوئے آرمی چیف کو یرغمال بنا لیا، مارشل لاءکا اعلان کر دیا اور فوجی تنصیبات ، تھانوں اور شہریوں پر بمباری شروع کر دی۔ 300 لوگ مارے گئے جن میں اکثریت فوجیوں اور پولیس والوں کی تھی۔ باغیوں کا خیال تھا کہ ایک بار مارشل لاءکا اعلان ہو گیا تو قبول بھی کر لیا جائے گا۔ بمباری تاکید مزید کے لیے کی گئی۔ عوام سڑکوں پر آئے ، بعض نے گولیوں کا سامنا کیا۔ کچھ ٹینکوں کے آگے بھی ڈٹ گئے لیکن یہ مظاہرے بغاوت کو دبانے کے لیے کافی سے بہت کم تھے۔ بغاوت دو گھنٹے کے اندر اندر ناکام ہو گئی۔ حالات البتہ دوسرے دن کنٹرول میں تب آئے جب آرمی چیف کو رہا کرا لیا گیا۔بعد میں حکومت نے باغی دھڑے کے افسر اور جوان فوج سے نکال دیے جن کی کل تعداد دس ہزار تھی۔ ترکی کی فوج ریزرو کو ملاکر آٹھ لاکھ سے اوپر ہے۔ تناسب خود نکال لیجیے۔ نتیجہ دو سطر میں بیان کیا جائے تو یہ کہ دو فیصد سے بھی کم نے بغاوت کی اور پکڑے گئے۔ کوئی مارشل لاءلگا نہ عوام نے ناکام بنایا۔ مارشل لاءلگ جائے تو عوام اس طرح کی مزاحمت سے اسے ناکام بنا بھی نہیں سکتے۔ رائے عامہ کا دباﺅ دو ہی گھنٹے میں نتیجہ خیز ہو جائے، ایسا کبھی تاریخ عالم میں نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی کے باخبر حضرات اپنی بے خبری کا مداوا فرما لیں!
_____________
خبر ہے کہ ’ادارے‘ میں بغاوت کے چار ناکام ارادے اور ’عملی‘ اقدامات (مثلاً شہباز گل کی ٹی وی پر جوانوں سے خطاب اور ریٹائرڈ بزرگواروں کی برین وارشنگ وغیرہ) کی ناکامی یعنی چار بار کی شکست کے بعد پی ٹی آئی نے اپنا ہدف چھوٹا کر لیا ہے اور اب توجہ اسلام آباد پولیس میں بغاوت کی کوشش پر ہے۔ ہدف کس طرح چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔ جنگل میں ایک لومڑی شکار کے لیے بھٹ سے نکلی۔ سورج چڑھ آیا تھا۔ لومڑی نے اپنا سایہ دیکھا جو بہت لمبا، بہت بڑا تھا۔ لومڑی اتنا بڑا سایہ دیکھ کر سخت ’خطرناک‘ ہو گئی، دل میں کہا، معمولی شکار سے کام نہیں چلے گا، ہاتھی مار کر کھاﺅں گی، پھر بات بنے گی۔ ہاتھی نہ ملا۔ سورج اور اوپر اٹھ آیا، سایہ کم ہو گیا۔ کہنے لگی، ہاتھی مارنے کی کیا ضرورت، گائے بیل مارنے سے کام چل جائے گا۔ گائے ملی نہ بیل۔ سورج اور بلند ہوا، سایہ اور سکڑ گیا۔ سوچا، بیل کی کیا ضرورت، بس ایک خرگوش کافی رہے گا۔ خرگوش بھی نہ ملا، سورج عین سر پر، سایہ سکڑ کر پاﺅں سے لپٹ گیا، کہنے لگی، بس پیٹ بھر گیا، واپس بھٹ کو چلتی ہوں۔
_____________
گوجرانوالہ میں لانگ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے خان صاحب نے قوم کو چور اور کرپٹ کا فرق سمجھایا۔ فرمایا، چور وہ ہوتا ہے جو کسی کی گھڑی وغیرہ چرا لے اور کرپٹ اسے کہتے ہیں جو قوم کا مال چرا لے۔ کسی کے مال اور قوم کے مال کی چوری میں فرق ہوتا ہے، خان صاحب نے کمال بلاغت سے کام لے کر واضح فرما دیا لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ انھوں نے گھڑی چوری ہی کی مثال کیوں دی؟ شاید وہ ان ’خیرمقدمی‘ بینرز سے متاثر ہو گئے جو گوجرانوالہ والوں نے سارے جی ٹی روڈ پر جابجا آویزاں کر دیے تھے اور جن پر گھڑی چور گھڑی چور کے الفاظ مکرر در مکرر درج تھے۔ یا شاید کوئی اور ماتحت الشعوری وجہ ہو، واللہ اعلم!
_____________
اس دوران لانگ مارچ تبدیل ہو گیا ہے یعنی طویل مارچ بن گیا ہے، یہاں طویل سے مراد قافلے کی لمبائی نہیں، مسافت کی طوالت ہے ۔ چوبیس گھنٹے میں بارہ کلومیٹر آگے بڑھتا ہے۔ کچھ ظاہر بینوں کا کہنا ہے کہ خان صاحب کو کسی پیامی کا انتظار ہے لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پیامی اب نہیں آئے گا، اسے اور ضروری کام پڑ گئے ہیں۔ تو کیا طویل مارچ باقی عمر سڑک پر ہی چپ راست کرتا رہے گا؟پی ٹی آئی والے کہتے ہیں ، یہ اصل میں خان کی چال ہے۔ وہ حکومت کو تھکا ما ریں گے اور مارچ میں شرکاءکی تعداد بھی خان کی چال ہے۔ جان بوجھ کر لوگوں کو شرکت سے روکا گیا ہے۔ آخر میں جا کر وہ یک دم کال دیں گے اور ملک بھر سے لوگ اچانک نکل پڑیں گے، پھر حکومت کا کام تمام__
ایسا لپک جھپک انقلاب تاریخ میں تو کہیں نہیں لکھا دیکھا۔ اس اعتراض پر پی ٹی آئی والے کہتے ہیں، خان صاحب نے تاریخ ہی بدل دینی ہے۔ نئی تاریخ لکھنی ہے۔ نیا پاکستان، نئی تواریخ۔ ادھر فواد چودھری نے کہا، تعداد کم ہے تو کیا، اسلام آباد جاتے جاتے 50 لاکھ ہو جائے گی۔ 50 لاکھ یعنی نصف کروڑ۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی والے کہتے تھے، پندرہ لاکھ لوگ آئیں گے اور حکومت کو بہا لے جائیں گے۔ یہ تو سراسر انسانی وسائل کا اسراف ہے۔ جب حکومت کو 15 لاکھ بہا لے جائیں گے تو مزید 35 لاکھ کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے؟
_____________
خان صاحب نے ایک اور راز کھولا۔ فرمایا، میں کرپشن کے خلاف تھا، باجوہ صاحب کے خلاف نہیں۔ میں احتساب کرنا چاہتا تھا، وہ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اچھا؟__
کب کھلا تجھ پر یہ راز
سائفر آنے کے بعد؟
کب کھلا تجھ پر یہ راز
Nov 03, 2022