جمعرات ، 7 ربیع الثانی،      1444ھ،  3 نومبر  2022ء

خیبر پی کے میں لانگ مارچ کیلئے غلیلیں خرید لی گئیں۔ گوجرانوالہ میں شاہ محمود قریشی کا سر زخمی 
کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے مگر فیصل واوڈا کی باتیں سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ لانگ مارچ میں خون ہی خون اور لاشیں گرتی دیکھ رہا ہوں۔ اب دیکھ لیں لانگ مارچ دو افراد کی جان لے چکا ہے۔ ایک ٹی وی رپورٹر کے بعد اب ٹرک سے گر کر زخمی ہونے والا شخص بھی ہلاک ہو گیا۔ رپورٹر کو تو لاکھوں روپے امداد ملی‘ اب اس بے چارے غریب سیاسی کارکن کو کیا ملے گا۔ کیا خان صاحب اس کے گھر جا کر اس کے غریب خاندان کو پرسا اور 20 یا 30 لاکھ امداد دیں گے یا پرویز الٰہی ان کے زخموں پر مرہم رکھیں گے۔ دوسری طرف گزشتہ روز گوجرانوالہ میں شاہ محمود قریشی فلائی اوور کا پلر لگنے سے زخمی ہو گئے۔ ان کے سر سے خون بہنے لگا۔ ریسکیو اہلکاروں نے انہیں فوری طبی امداد دی۔ آگے چل کر کیا ہوتا ہے‘ اس کا کچھ پتہ نہیں۔ خدا خیر ہی کرے کیونکہ خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کے رہنما ارباب عاصم و دیگر نے ہزاروں غلیلیں خرید لی ہیں جنہیں پولیس پرپتھرائو کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ اسلحہ کے بعد اب یہ غلیلیںبھی میدان جنگ میں استعمال ہونگی جس سے ظاہر ہے سر تو پھٹیں گے‘ خون تو بہے گا‘ وفاقی پولیس نے بھی خاطر تواضع کے طورپر آنسوگیس کے علاوہ مرچی گیس کا بھی بندوبست کر لیا ہے۔ جو آنکھوں کے علاوہ بدن میں بھی خارش کا سبب بنتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی لاٹھیوں کو خوب تیل پلوایا گیا ہے جس کے بعد لگتا ہے کہ اگر لانگ مارچ کے دونوں متحارب گروپ ٹکرائے تو پھر شاید وہی ہوگا جو فیصل واوڈا نے کہا تھا۔
٭٭……٭٭
بھوکا ہوں‘ 5 روز سے گھر میں راشن نہیں‘ سکول سے پنکھے چوری کرنے والے کی بلیک بورڈ پر تحریر
شہداد پور میں ایک چور رات کو پرائمری سکول سے 5عدد پنکھے چرا کر لے گیا مگر اس کا ضمیر زندہ ہے۔ ہائے کیا دور آگیا اربوں کروڑوں لوٹ کرکھانے والوں کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے مگر چند ہزار کے پنکھے چوری کرنے والے اس غریب چور نے بلیک بورڈ پر لکھ کر ثابت کر دیا کہ اس کا ضمیر مرا نہیں۔ چور نے لکھا ہے کہ وہ غریب آدمی اور بھوکا ہے۔ اس کے گھر میں 5 روز سے راشن کا دانہ تک نہیںنہ کوئی اس کی مدد کیلئے آیا ہے اس لئے وہ مجبوری کی وجہ سے سکول کے پنکھے چوری کرکے لے جا رہا ہے۔ اب جناب کیا کہتے ہیں ‘ قرون اول کی مثالیں دینے والے وہ فرشتہ صورت چہرے والے عالم اور چمکتے دمکتے رنگ و روپ والے شرفاء جو درس اور بھاشن تو دیتے ہیں مگر اپنے آس پڑوس کے بھوکے لوگوں سے بے پروا ہیں جس کے بعد یہ نوبت آئی ہے۔ خدا کرے کہ کوئی حضرت عمر بن خطابؓ جیسا حکمران پھر آئے جو کم از کم یہ حکم تو دے کہ قحط آفات کے دور میں اشیائے خورونوش کی چوری پر سزا نہ دی جائے۔ آج وہی وقت ہے۔ بھوک‘ ننگ کے باعث خودکشیاں عام ہیں۔ ماں باپ بچوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اب یا تو آسمان سے قہر آئے یا سیدنا‘ عمرؓ جیسا حاکم آئے جو کم از کم عوام کی دادرسی تو کرے اور کروڑوں اربوں کھربوں روپے چوری کرنے والے اشرافیہ کی گردن پر بھی ہاتھ ڈالے۔
٭٭……٭٭
بھارتی ریٹائرڈ میجر کی عمران کے لانگ مارچ کیلئے چندے کی اپیل
اس پر کوئی واسوختہ ‘ شہر آشوب نوحہ یا ھجونہ لکھے تو کیا لکھے۔ پاکستان بہت سے دلوں میں کانٹا بن کر چبھتا ہے اور خنجر بن کر ان کے سینوں میں پیوست ہے۔ کسی میں ہمت تو نہیں کہ براہ راست اس کو نقصان پہنچائے مگر خود اگر ملک کے اندر ہی کوئی عدم استحکام کی کوشش کرتا ہے تو اس کو تقویت پہنچانے میں یہ پاکستان دشمن پیش پیش رہتے ہیں اور دامے‘ درمے‘ سخنے ان کی مدد کرکے دلی مسرت محسوس کرتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں ماضی میں جب پاکستان کو اندرونی سازشوں کے باعث دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا تو اس وقت بھی اس ساری سازش کے پیچھے بھارت کا ہاتھ تھا۔ جنگ سے سب کو پتہ چل گیا کہ بھارت پاکستان کو توڑنے کیلئے سامنے آگیا ہے۔ یہ ماضی کا قصہ تھا‘ اب پہلی بار کوئی سیاسی جماعت لانگ مارچ سے پہلے ملک کے مقتدر اداروں جن میں فوج اور عدلیہ بھی شامل ہے کہ خلاف جو بدترین الفاظ اور زبان استعمال کر رہی تواس سے بھارت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہاں کا میڈیا اس سیاسی جماعت کو‘ اس کے قائد کو ہیرو بنا کر پیش کر رہا ہے جس طرح ماضی میں شیخ مجیب الرحمن کو اس کے بعد علیحدگی پسند دہشت گردوں کو پیش کرتا آرہا ہے۔ بھارتی فوج کے سابق میجر کی طرف سے بھارتی شہریوں سے جو اپیل کی گئی ہے کہ عمران خان کو چاہے دس ڈالر ہی کیوں نہ ہو‘ ہر بھارتی ضرور چندہ دے تاکہ لانگ مارچ والوں کو پیسے کی کمی نہ ہو اور ان بھارتی شہریوں کو سراہا ہے جنہوں نے چندہ دیا ہے۔ اس کے بعد اب کوئی کہانی کیا رہ جاتی ہے جو سنائی جائے اور اس کی وضاحت کی جائے اس لئے پی ٹی آئی والے بھی اس بارے خاموش ہیں۔
٭٭……٭٭
وسط ایشیائی ممالک سے گیس کی خریداری میں مثبت پیش رفت
وسط ایشیائی ریاستوں سے گیس کی خریداری ہویا روس سے گندم کی خریداری‘ یہ کام جلد از جلد مکمل ہونا چاہئے۔ آگے 2023ء الیکشن کا سال ہے۔ اگر یہ معاملات بروقت طے نہ ہو سکے تو پھر موجودہ حکمران بھول جائیں گے کہ ان کو ووٹ ملیں گے۔ سردیوں میں گیس کی شدید قلت کا اعلان خود حکومتی وزراء اور ادارے کر رہے ہیں۔ بدترین سیلاب کے بعد گندم کی قلت کے بعد غذائی بحران کی باتیں بھی یہی لوگ کر رہے ہیں۔ اگر یہ سب حکمرانوں کے علم میں ہے تو ایمرجنسی ایکشن لیں روس سے گندم اور وسط ایشیائی ریاستوں سے گیس کا حصول جلد از جلد یقینی بنائیں تاکہ عوام کو ریلیف ملے۔ ان کا غصہ کم ہو۔اگر روس سے معاملہ طے کر رہے ہیں تو ایران کونسا سات سمندر پار ہے اس سے طے شدہ معاہدے کے مطابق گیس کے ساتھ تیل بھی رعایتی نرحوں پر حاصل کریں۔ صرف امریکہ یا کسی اور کے خوف سے عوام کو ٹھٹھرا ٹھٹھرا کر یا بھوکا مارنے سے تو لاکھ درجہ بہتر ہے کہ ایران سے فوری طورپر گیس حاصل کی جائے ورنہ تیل کے بعد گیس اور بجلی کا بحران غذائی اجناس کی قلت کے ساتھ مل کر حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کیلئے کافی ہونگے۔ اس سے اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک میں بھی طاقت آئے گی اور ووٹ بھی ان کو بے حساب و کتاب ملیں گے۔

ای پیپر دی نیشن