سورۃ بقرہ کے مضامین (۱۷)

 حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات ستودہ صفات امتوں کے درمیان ایک امتیازی شان کی حامل ہے، یہود ونصاریٰ خود کو انھیں کے سلسلہ سے منسلک کرتے تھے، مکہ مشرکین بھی نسبی تعلق کے حوالے سے انھیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے،’’ابوالانبیاء حضرت ابراہیم ؑکے اسم گرامی سے عرب کا بچہ بچہ واقف تھا اس لیے قرآن حکیم نے پہلی دفعہ ہی کسی تمہید وتعارف کے بغیر ان کا ذکر فرمایا ، تورات میں آپکا نام ابرام اورابراہیم دونوں طرح سے آیا ہے، جدید اثری تحقیقات کے مطابق آپکا سالِ پیدائش ۲۱۶۰ق م سے تورات میں عمر شریف ۱۷۵سال درج ہے، آپ کا آبائی وطن بابل ہے جسے آج کل عراق کہتے ہیں۔ جس شہر میں آپ کی ولادت ہوئی اس کا نام تورات میں اُور(UR)ہے مدتوں یہ شہر نقشے سے غائب رہا، اب ازسرنو نمودار ہوگیا ہے، کھدائی کے کام کی داغ بیل ۱۸۹۴؁ میں ہی پڑگئی تھی ۱۹۲۲؁ میں برطانیہ کے ماہرین اثریات کی ایک مشترکہ تحقیقاتی مہم عراق کو روانہ ہوئی اورکھدائی کا کام پورے سات سال تک جاری رہا، رفتہ رفتہ پورا شہر نمودار ہوگیا ، موجود محرف بائبل میں تاریخی غلطیوں کی کثرت سے اکتا کر بعض محققین نے انیسویں صدی کے آخر میں یہ کہنا شروع کردیاتھا کہ ابراہیم (علیہ السلام )نامی کوئی تاریخی شخصیت گزری نہیں بلکہ یہ محض ایک نوعی نام تھا، یاہر قبیلہ کے شیخ کا لقب تھا، لیکن اب پھر تحقیق کا رخ بدلا اوربیسویں صدی کے آغاز میں ہی پھر (یورپ)کو آپ کی تاریخی شخصیت کا پوری طرح قائل ہونا پڑا‘‘۔(ماخوذ از تفسیر ماجدی)سورہ بقرہ میںآپکے ذکر کیساتھ اس بات کا اظہار بھی کیاگیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مختلف امتحانات کے ذریعے آزماء کیا اوروہ ہر امتحان پر پورے اترتے یہ امتحان انکی زندگی کے مختلف مراحل پر آلام ومصائب اوردعوت دین کے حوالے سے بھی تھے اوراحکام شریعت کی صورت میں بھی، وہ ہر مرحلے سے بڑی جرأت واستقامت سے گزرے اورشریعت کے جملہ احکام پر بھی پوری طرح کاربند رہے، جب وہ ہر حکم کو پورے طور پر بجالائے تو انھیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ارشادہوا کہ ’’بے شک میں تمہیں تمام انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں، حضرت ابراہیم ؑنے اپنی اولاد کے بارے میں بھی استفسار کیا تو جواب ملا کہ میرا عہد ظالموں تک نہیں پہنچتا ہاں جو لوگ ان میں سے نیک طینت اورنیک خصلت ہوں گے، وہ بھی اللہ کی رحمت سے سرفراز ہوںگے، پھر ذکر کیا گیا کہ یہ ابراہیم ؑاوراسماعیل علیہ السلام ہی ہیں جنہیں بیت اللہ کی تعمیر کا شرف عطاء فرمایا گیا اوران سے اس گھر کو صاف ستھرا اورآباد کرنے کا عہد لیاگیا ، اس گھر کی خدمت سے سرخرو ہونے کے بعد حضرت ابراہیم ؑاورحضرت اسمعیل ؑنے اس گھر کی آبادی، مکہ کے باشندوں کی خوشحالی اورفراوانی رزق کیلئے خصوصی دعائیں کیں ، اپنے لیے بندگی کی سعادت طلب کی اورایک خصوصی دعاء رسول عظیم کی بعثت کے حوالے سے کی۔

ای پیپر دی نیشن