جنوبی پنجاب سے قافلے 11 نومبر کو اسلام آباد روانہ ہوں گے

 ملتان ؛
فرحان انجم ملغانی
ملک میں سیاسی درجہ حرارت عروج پر پہنچ چکا ہے اور عمران خان کے لانگ مارچ کی وجہ سے سیاسی ہلچل جاری ہے جس کی وجہ سے ملک میں اس وقت بدستور بے یقینی کی صورت حال ہے۔ پی ٹی آئی چئیر مین عمران خان کا لانگ مارچ جمعہ 28 اکتوبر سے لاہور سے روانہ ہے اور انتہائی سست روی کے ساتھ اپنی حتمی منزل اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہے اور عمران خان نے لانگ مارچ کو اپنے شیڈول سے کئی دن کی تاخیر کے ساتھ اسلام آباد پہنچنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس پریشر کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا کر قبل از وقت انتخابات سمیت اپنے دیگر مطالبات بیک ڈور رابطوں کے ذریعے ہی تسلیم کروانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کو بھی معلوم ہے کہ اگر معاملات طے نہیں پائے تو اسلام آباد پر چڑھائی خوفناک تصادم کی شکل احتیار کرسکتی ہے۔ اس وقت وفاقی دارالحکومت سے متصل صوبہ پنجاب، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔اس لیے بظاہر لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ صوبائی حکومتیں اس مارچ میں سہولت کاری کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ایسے میں  وفاقی حکومت کے لیے اس لانگ مارچ کو اسلام آباد میں داخلے کو روکنا کسی طور پر آسان نہیں ہوگا ۔اس لئے وفاقی حکومت کو عمران خان کے لانگ مارچ کو روکنے کیلئے آرٹیکل 245 کے تحت فوج اور رینجرز کو سکیورٹی کے لیے طلب کرنا نا گزیر ہو جائے گا۔مسلم لیگ ن  اس آرٹیکل کو دوسری مرتبہ نافذ کرنے والی حکومت ہوگی۔اس بار انہیںپاکستان پیپلزپارٹی، جمعیت علماء اسلام (ف) سمیت پی ڈی ایم میں شامل 14 جماعتوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ مگر اس بار سخت گیر موقف اور جارحانہ پالیسی رکھنے والے وزیرداخلہ رانا ثنا ء اللہ کا سامنا کرنا ہو گا جبکہ ماضی میں وزارت داخلہ کا قلمدان عمران خان کے ایچی سن کالج کے دوست چوہدری نثار علی خان کے پاس تھا اس لئے عمران خان اور وزیر داخلہ کے درمیان اس بارکسی قسم کی مروت والارشتہ نہیں ہے۔ اس وقت عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کے بااثر حلقوں کی بھی درپردہ ہر وہ حمایت حاصل تھی جو کہ اب بظاہر دکھائی نہیں دے رہی۔ اس بار موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھی عمران خان کے لیے سخت اور واضح موقف سامنے آ رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے حالیہ مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ فوج اپنا آئینی کردار ادا کرتے ہوئے سیاست سے دور رہے گی جب کہ عمران خان کی جانب سے اداروں کے نیوٹرل کردار پر مسلسل تنقید کی جا رہی ہے اور وہ اپنے مطالبات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ۔ جب کہ حکومت کا موقف ہے کہ آئندہ عام انتخابات اپنے وقت مقررہ وقت پر کرانے ہوں گے اور نئے آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کا اختیار ہے اور اس میں عمران خان کی جانب سے مشاورت کے مطالبات غیر آئینی اور بلاجواز ہیں اسی طرح مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کا بھی بیان سامنے آگیا ہے کہ عمران خان سے کسی قسم کے مذاکرات ہونگے اور نہ ہی کسی قسم کی فیس سیونگ دی جائے گی۔ عمران خان اس مرتبہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی احتجاجی تحریک کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
 28اکتوبر کو لاہور سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کو 4 نومبر کو اسلام آباد پہنچنا تھا مگر اب پی ٹی آئی کی جانب سے 11 یا 12 نومبر تک اسلام آباد پہنچنے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ جنوبی پنجاب سے تاحال قافلے روانہ نہیں کیے گئے۔ جنوبی پنجاب کے 12 اضلاع بہاولپور، رحیم یار خان ،بہاولنگر ، ڈیرہ غازی خان ،لیہ ،مظفر گڑھ، راجن پور، کوٹ ادو، لودھراں، وہاڑی، خانیوال اور ملتان سے قافلے اب متوقع طور پر 11 نومبر کو اسلام آباد کے لیے روانہ ہوں گے اور جنوبی پنجاب کے صدر سینیٹر عون عباس بپی گزشتہ ایک ماہ سے بھرپور انداز سے پی ٹی آئی ورکرز کو متحرک کرنے میں مصروف ہیں انہوں نے ہر ضلع میں لانگ مارچ کے حوالے سے آرگنائزنگ کمیٹیاں تشکیل دے رکھی ہیں پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق ہر رکن قومی اسمبلی کو4 سے 5بسیں رکن صوبائی اسمبلی کو 3 بسیں امیدواران قومی و صوبائی اسمبلی اور ضلعی و سٹی عہدیداران کے ذمہ کم از کم 2،2 بسوں کا انتظام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ پی ٹی آئی پنجاب کے صدر سینیٹر عون عباس بپی نے دعویٰ کیا ہے کہ جنوبی پنجاب سے 700 سے زائد بسوں اور سینکڑوں گاڑیوں کا قافلہ روانہ ہوگا اور تمام قافلے شام کوٹ انٹر چینج خانیوال کے مقام سے روانہ ہوں گے۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق اسلام آباد پہنچ کر کم از کم دو سے تین روز دھرنا دینے کی تیاری کا بھی ٹاسک دے دیا گیا ہے اور اس حوالے سے تیاریاں مکمل ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے لیے لئے ضلعی انتظامیہ ملتان ڈویژن کی جانب سے مختلف اضلاع میں گاڑیوں اور بسوں کی پکڑ دھکڑ کے الزامات بھی سامنے آرہے ہیں اس حوالے سے انتظامیہ نے ڈویژن بھر میں لانگ مارچ کے لئے گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔ ملتان کے علاوہ خانیوال ، وھاڑی ، لودھراں سے گاڑیوں کو پکڑ کر مختلف جگہوں پر بند کردیا ھے۔ ملتان شہر کے مختلف علاقوں سے ٹرانسپورٹرز کی کئی گاڑیوں کو قبضے میں لے لیا گیا ہے۔ جب انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ابھی تک کوئی گاڑی نہیں پکڑی ٹرانسپورٹرز کا کہنا تھا کہ ان کی گاڑی جیسے ھی سڑک پر نکلتی ہے تو انتظامیہ کے مختلف افراد گاڑی اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں اور سواریوں کو اتار دیتے ہیں اس سے ان کا کاروبار بھی بری طرح متاثر ھو رھا ہے۔ اس حوالے سے ایک ٹرانسپورٹر نے عدالت عالیہ میں گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ کے خلاف درخواست بھی دائر کر رکھی ھے۔ اس درخواست پر ضلعی انتظامیہ اپنا مؤقف عدالت میں بھی پیش کرے گی۔ جبکہ پی ٹی آئی کے رہنما ملک عامر ڈوگر کی جانب سے ضلعی انتظامیہ کی طرف سے بسوں کی پکڑ دھکڑ کی سختی سے تردید کی گئی ہے ان کا کہنا ہے کہ باقاعدہ کرایہ ادا کرکے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا گیا ہے اور بذریعہ چیک ٹرانسپورٹرز کو ایڈوانس ادائیگیاں کر دی گئی ہیں۔ 
حکومت اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ میں محاذ آرائی کی وجوہات جو بھی ہوں یہ بات ایک حقیقت ہے کہ اس کشیدگی سے ملکی معیشت اور عوام ہی متاثر ہو رہی ہے۔ حکومتی ایوانوں اور اپوزیشن کی اس جنگ میں کامیابی کس کی ہوتی ہے یہ تو وقت ہی ثابت کرے گا۔ مگر موجودہ غیر یقینی کی صورتحال اور کشیدگی کسی طور پر ملکی مفاد میں نہیں اس لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مثبت مذاکرات کے ذریعے "معاملات" کو حل کرنا چاہیے کیونکہ تصادم کی صورت حال کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگی ۔عمران خان کا انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا مطالبہ بظاہر سادہ سا لگتا ہے جس کو تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں مگرمطالبات اور معاملات اتنے سادہ نہیں جو ظاہر کیے جا رہے ہیں کیونکہ بقول شاعر
 ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں یہ دھوکہ بازی گر کھلا

ای پیپر دی نیشن