سیاسی کمکش کے ساتھ ساتھ بیورو کریسی میں مسلسل اتھل پتھل

ندیم بسرا ……… قومی افق 
عمران خان لانگ مارچ کے قافلے میں شرکاء کی تعداد کے حوالے سے خاصے مایوس نظر آتے ہیں۔ جب سے صحافت کا آغاز کیا تب سے میرے علم میں یہ بات رہی کہ کسی بھی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کسی اشارے کے بغیر شروع نہیں ہوتی۔ اگر شروع ہو بھی جائے تو مکمل نہیں ہوتی۔ اس میں قاضی حسین احمد کا دھرنا، نوازشریف کی تحریک نجات، بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک شامل ہے۔ اس کی مثال ماضی قریب میں اگر دیکھیں تو 2014ء کا  دھرنا ہے، جس میں عمران خان 126 روز وفاقی دارالحکومت میں براجمان رہے،اُس وقت نوازشریف وزیراعظم تھے۔ اُس وقت کے وزیراعظم کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ عمران خان کا دھرنا کسی اشارے کے بغیر نہیں جس کی وجہ سے وہ اس وقت باڈی لینگوئج کے اعتبار سے کافی دباؤ میں نظر آتے تھے۔ اسی وجہ سے اس وقت چینی صدر کا دورۂ پاکستان ملتوی کروا دیا گیا تھا۔ دباؤ کے اس عالم میں حکومت وقت کو چین سے درخواست کرنا پڑی تھی کہ غیر مستحکم حالات کی وجہ سے دورۂ پاکستان منسوخ کر دیں۔ اشارے کے بغیر چلائے جانے والے لانگ مارچ کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم میاں شہبازشریف عمران خان کی بڑھکوں کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے خود دورہ چین مکمل کر کے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ اگر پنجاب کی طرف دیکھا جائے تو اس وقت چودھری پرویز الٰہی صوبے کے معاملات بہتر طریقے سے چلا رہے ہیں مگر پنجاب چونکہ پی ٹی آئی کے سابق دور حکومت میں مختلف سیاسی مسائل کا شکار رہا۔ یہ سیاسی مسائل پی ٹی آئی کے طاقتور وزیروں کے بنائے ہوئے تھے جو اُس وقت کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے اور آج بھی وہی چہرے پرویز الٰہی کی عوام دوست پالیسیوں کو کامیاب نہیں دیکھا چاہتے۔ چونکہ چودھری پرویز الٰہی ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اور عثمان بزدار نومولود سیاست دان تھے اس لئے ان کے مقابلے میں چودھری پرویز الٰہی بخوبی بہتر کام کرنا جانتے ہیں۔
ایسی صورتحال کے تناظر میں پنجاب میں سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی بھی شدید  اتھل پتھل کا شکار ہے۔ گزشتہ روز ایک سینئر بیوروکریٹ سے ملاقات ہوئی تو برملا وہ کہنے لگے کہ باقی باتیں چھوڑیں ’’چھ ماہ سے بیوروکریسی کی چاندی ہوگئی ہے‘‘ نوکری کرنے کا مزہ آرہا ہے کیونکہ پنجاب میں کوئی حکومت نہیں ہے، تو میں نے کہا کہ جس بات پر آپ خوش ہو رہے ہیں آخر کار آپ لوگوں نے بھی پھنسنا ہے۔ اس پر وہ مسکرائے تو میں یہ سوچنے لگا کہ نا صرف پنجاب بلکہ پاکستان کے ہر صوبے میں یہی صور ت حال غالب ہے اور ہمارے خون پسینہ سے ادا کئے جانے والے ٹیکسز کا نوکر شاہی پر بے دریغ استعمال  کیاجارہا ہے۔ پنجاب میں چیف سیکرٹری ڈاکٹر کامران افضل کی وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی سے ’’کیمسٹری‘‘ نہ ملنے پر شدید اختلافات ہیں جس وجہ سے وہ ایک رخصت ختم ہونے کے بعد دوسری رخصت اپلائی کر دیتے ہیں۔ اس وقت سنا ہے کہ ڈاکٹر کامران افضل نے رخصت نہیں مانگی تھی بلکہ وزیراعلیٰ کی طرف سے انہیں رخصت پر بھیجا گیا جس کو عام فہم میں ’’جبری رخصت‘‘ کہا جاتا ہے۔ صوبہ پنجاب میں وہ افسران جو حقیقی طور پر عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں ان حالات میں شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ اس صورت حال میں ایسے با ہمت اور پر عزم  افسران بھی ہیں جو کسی نہ کسی طرح بہتری کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ جس طرح  اسد اللہ فیض جو حال ہی میں ٹورازم ڈیپارٹمنٹ سے محکمہ معدنیات کے سیکرٹری تعینات ہوئے ہیں،انہوں نے آتے ہی معدنیات کے کے شعبے کو صوبے میں  منافع بخش ادارہ بنانے اوراسے خسارے سے نکالنے کے حوالے سے اقدامات کئے ہیں۔ اسد اللہ فیض نے ادارے کو منافع بخش بنانے کے ساتھ ساتھ کان کنی میں خدمات انجام دینے والے مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لئے انتہائی مثبت اقدامات کئے ہیں۔
وہ ایم ایل ڈبلیو ہسپتالوں میں سپیشلسٹ ڈاکٹرز کو خصوصی پیکج پر خدمات حاصل کر چکے ہیں کیونکہ کان کنی کے دوران مزدوروں کے زخمی ہونے کے خدشات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ ایک اہم مسئلہ جو فوری حل کی طرف توجہ چاہتا تھا وہ متوفی کارکنوں کے معاوضوں کی بروقت فراہمی تھا جس میں سیکرٹری کی خصوصی توجہ سے دس اعشاریہ چھ ملین روپے اس مد میں ادا کئے گئے ہیں اگر محکمے میں مزدوروں کے لئے ایس او پی پر عمل نہ کیا جائے تو حادثات کا خدشہ رہتا ہے۔ سیکرٹری معدنیات اس سلسلے میں سخت مؤقف رکھتے ہیں وہ سرگودھا کی سینڈ سٹون کی لیزوں کے معائنے پر ناقص اور غیر تسلی بخش حفاظتی پروٹوکول اختیار نہ کرنے پر مائنز ایکٹ 1923ء کی دفعہ (2) 19 کے تحت میسر صوفی محمد انور، سی این بی مائننگ کارپوریشن اور میسرز طفیل چیمہ کی لیز  ایریا میں آپریشن معطل کرنے کے احکامات بھی صادر کر چکے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن