اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ وقائع نگار) ملک مےں آئندہ جنرل الےکشن جمعرات 8 فروری کو ہوں گے۔ 8 فروری کو قومی اور صوبائی اسمبلےوں کے انتخابات بےک وقت کرانے کے بارے مےں صدر عارف علوی اور الےکشن کمشن کے درمےان اتفاق رائے ہو گےا ہے۔ جنرل الےکشن کی تارےخ پر اتفاق رائے مےں اٹارنی جنرل نے اہم کرادار ادا کیا۔ اےوان صدر کے بےان مےں بتاےا گےا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور الیکشن کمشن کے چار ممبران کے ساتھ ایوان صدر میں عارف علوی سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں ملک میں آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کیلئے تاریخ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ صدر نے الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں اور انتخابات کے حوالے سے کی گئی پیش رفت کو سنا۔ تفصیلی بحث کے بعد اجلاس میں متفقہ طور پر ملک میں عام انتخابات 8 فروری 2024ءکو کرانے پر اتفاق کیا گیا۔ ملک میں 90 روز میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور بتایا کہ الیکشن کمیشن 11 فروری 2024 کو ملک میں الیکشن کروانے کے لیے تیار ہے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ صدر مملکت سے فوری مشاورت کر کے آج جمعہ کو عدالت میں الیکشن کی تاریخ سے متعلق آگاہ کیا جائے۔ تاہم سپریم کورٹ کے حکم پر صدر عارف علوی سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان نے ملاقات کی جس میں الیکشن کمیشن کے ارکان بھی موجود تھے۔ ذرائع کے مطابق صدر سے چیف الیکشن کمشنر اور اٹارنی جنرل کی ملاقات ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی جس میں عام انتخابات کے لیے صدر مملکت کے سامنے 3 تاریخیں رکھی گئیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 28 جنوری، 4 فروری اور 11 فروری کی تاریخوں پر رائے دی، تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے 11 فروری کو انتخابات کے لیے موزوں قرار دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق چیف الیکشن کمشنر صدر سے ملاقات کے بعد ایوان صدر سے روانہ ہوکر الیکشن کمیشن پہنچے جہاں انہوں نے صدر مملکت کو خط لکھتے ہوئے ملک میں 11 فروری کو الیکشن کرانے کی تجویز دی۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے 11 فروری کو عام انتخابات کی تاریخ تجویز کرتے ہیں۔ تاہم بعد ازاں 8 فروری کی تارےخ پر اتفاق رائے ہو گےا۔ آج عدالت عظمی کو بھی اس سے آگاہ کر دےا جائے گا۔ ترجمان الیکشن کمشن نے بھی کہا ہے کہ الیکشن جمعرات 8 فروری کو ہوں گے۔
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) 90 روز میں عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ ملک میں عام انتخابات 11فروری کو ہوں گے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ایک دفعہ تاریخ کا اعلان ہو جانے پر تصور کیا جائے یہ پتھر پر لکیر ہو گی۔ تاریخ بدلنے نہیں دیں گے۔ صدر نے الیکشن کی تاریخ نہ دے کر آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ سپریم کورٹ میں عام انتخابات 90 روز کے اندر کرانے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ دیگر دو ارکان میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ اپنی استدعا کو صرف ایک نقطہ تک محدود کروں گا، استدعا ہے کہ الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت نے پاکستان پیپلزپارٹی کو کیس میں فریق بننے کی اجازت دے دی ہے، انتخابات 90 روز میں کرائے جائیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی 90 دنوں میں انتخابات کی استدعا تو اب غیر مو¿ثر ہو چکی ہے۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کی رائے جاننے سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے سوال کیا کہ اب آپ صرف انتخابات چاہتے ہیں؟۔ اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ جی ہم انتخابات چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میرا نہیں خیال کوئی اس کی مخالفت کرے گا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ مخالفت کریں گے؟۔ جس کا جواب اٹارنی جنرل نے انکار میں جواب دیا۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 58 اور 224 پڑھا جا سکتا ہے، انتخابات نہیں ہوں گے تو نہ پارلیمنٹ ہوگی نہ قانون بنیں گے، انتخابات کی تاریخ دینا اور شیڈول دینا دو چیزیں ہیں۔ الیکشن کی تاریخ دینے کا معاملہ آئین میں درج ہے۔ صدر اسمبلی تحلیل کرے تو 90 دن کے اندر کی الیکشن تاریخ دے گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ تاریخ دینے کیلئے صدر کو وزیر اعظم سے مشورہ لینا ضروری ہے۔ اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ مشورہ لینا ضروری نہیں ہے اور اپنا آئینی فریضہ ہے کہ وہ تاریخ دے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا صدر نے الیکشن کی تاریخ دی ہے؟۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری رائے میں صدر نے تاریخ دے دی ہے تاہم الیکشن کمیشن نے اس پر کہا کہ یہ صدر کا اختیار نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وہ خط دکھا سکتے ہیں جس میں صدر نے تاریخ دی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صدر نے تاریخ دینے کا حکم دینا ہے، حکومت نے اسے نوٹیفائی کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے دوبارہ کہا کہ صدر نے جس خط میں تاریخ دی وہ کہاں ہے؟۔ اس پر وکیل علی ظفر نے صدر کا خط پڑھ کر سنا دیا۔ چیف جسٹس نے سوال کی کہ اسمبلی 9 اگست کو تحلیل ہوئی اس پر تو کسی کا اعتراض نہیں؟۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ جی کسی کا اعتراض نہیں۔ وکیل پی ٹی آئی نے عدالت کو بتایا کہ وزارت قانون نے رائے دی صدر تاریخ نہیں دے سکتے، 90 دنوں کا شمار کیا جائے تو 7 نومبر کو انتخابات ہونے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ صدر کو الیکشن کمیشن کو خط لکھنے میں اتنا وقت کیوں لگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صدر نے سپریم کورٹ سے رائے لینے کیلئے ہم سے رجوع کیا؟ صدر کے خط کا متن بھی کافی مبہم ہے، صدر نے جب خود ایسا نہیں کیا تو وہ کسی اور کو یہ مشورہ کیسے دے سکتے ہیں؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ صدر نے اپنا آئینی فریضہ ادا نہیں کیا، 9 اگست کو اسمبلی تحلیل ہوئی اور صدر نے ستمبر میں خط لکھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کی کمانڈ بڑی واضح ہے صدر نے تاریخ دینا تھی، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اختلاف کرنے والے بھلے اختلاف کرتے رہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جس دن قومی اسمبلی تحلیل ہوئی اسی دن صدر تاریخ دیتے تو کوئی بھی اعتراض نہ اٹھا سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد کیلئے پوری مشینری شامل ہوتی ہے کیا سپریم کورٹ انتخابات کی تاریخ دے سکتی ہے؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے کبھی کہا کہ صدر تاریخ دے؟۔ وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے کہا انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہمارا ہے صدر مملکت کی تاریخ نہ دینے کے پہلو کو ایک طرف رکھ کر ہمیں سپریم کورٹ کو بھی دیکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم صدر کے خلاف جا کر خود انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں؟۔ آئین پاکستان نے ہمیں تاریخ دینے کا اختیار کہاں دیا ہے؟۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک مرحلے میں مداخلت کر چکی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس وقت سوال مختلف تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات کا انعقاد تو اچھی چیز ہے پرابلم نہیں ہے آپ کے لیڈر صدر کے بھی لیڈر ہیں، صدر کو فون کر کے کیوں نہیں کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ دیں؟۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ کی دلیل تو یہ ہے کہ صدر نے آئین سے انحراف کیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بادی النظر میں حکومت، الیکشن کمیشن اور صدر مملکت تینوں ذمہ دار ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے، انتخابات تو وقت پر ہونے چاہئیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں؟۔ آپ صدر کو ایک فون کر کے کیوں نہیں کہتے کہ تاریخ دیں۔ اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ وہ صدر پاکستان ہیں پورے ملک کے صدر ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہم سے ان کے خلاف کارروائی چاہ رہے ہیں؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدر اپنے ہاتھ کھڑے کر کے کہہ رہے ہیں جاو¿ عدالت سے رائے لے لو۔ صدر پھر خود رائے لینے آتے بھی نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات میں التوا کیلئے الیکشن کمیشن سمیت سب ذمہ دار ہیں۔ مقررہ مدت سے اوپر وقت گزرنے کے بعد ہر دن آئینی خلاف ورزی کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صدر نے صرف بتایا ہے 89 دن بعد فلاں تاریخ بنتی ہے۔ آرٹیکل 248 کو بھی مدنظر رکھیں۔ صدر نے تو صرف ایک خط میں گنتی پوری کر کے لکھ دی۔ صدر مملکت کی تو گنتی بہت اچھی ہے لیکن انہوں نے تاریخ نہیں دی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے سیکشن 57 کے تحت اب تاریخ دینے کا اختیار ہمارا ہے۔ صدر کے پاس اختیار تھا تو انہوں نے تاریخ کیوں نہیں دی۔ سوال یہ ہے کہ صدر مملکت نے تاریخ کیوں نہیں دی، اگر آپ کو حق ہو تو اس فیصلے کو کیسے لکھیں گے؟۔ میں تو فیصلے میں لکھوں گا کہ 54 دنوں کا شیڈول سامنے رکھتے ہوئے صدر تاریخ دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسے آرڈر کی خلاف ورزی ہو تو کیا ہم صدر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر سکتے ہیں؟ صدر مملکت تو کہیں گے کہ ہمیں آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حکومت، الیکشن کمیشن یا صدر جس نے خلاف ورزی کی ان کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی سے کہا کہ آپ جو دلائل دے رہے ہیں اس سے تو صدر مملکت پر آرٹیکل 6 لگ جائے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین معطل کرنے کی سزا پر آرٹیکل 6 لگتا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میری رائے میں ابھی تک آئینی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ 7 نومبر کی تاریخ گزرنے کے بعد آئین کی خلاف ورزی کی بات ہو گی۔ علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عابد زبیری روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ پہلے یہ بتائیں کہ علی ظفر سے متفق ہیں یا نہیں، اس پر عابد زبیری نے کہا کہ میں اپنی استدعا پڑھوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کی استدعا سے نہیں آئین سے مطلب ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں مزید آئین کی خلاف ورزی جاری رہے؟۔ عابد زبیری نے کہا کہ میں ایسا نہیں چاہتا۔ عابد زبیری نے 14 مئی کے الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ عابد زبیری صاحب آپ اس جھگڑے میں پڑے ہیں تو پھر بتائیں اس کا کورٹ آرڈر کہاں ہے؟۔ آپ وہ آرڈر دکھا ہی نہیں سکتے کیونکہ اس کا باضابطہ آرڈر موجود نہیں۔ عابد زبیری نے کہا کہ میں 3 رکنی بینچ کے فیصلے کا حوالہ دے رہا ہوں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم نے نہیں کہا تھا کہ 90 دن میں الیکشن آئین کے تحت ضروری نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپریل کے فیصلے کا حوالہ دے کر ہمیں پریکٹس اینڈ پروسیجر کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اس پر عابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کا فیصلہ 14 اپریل کو آیا پریکٹس اینڈ پروسیجر 21 اپریل کو بنا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تفصیلی فیصلہ تو اگست میں جاری کیا گیا۔ اس پر عابد زبیری نے کہا آپ کا اپنا فیصلہ ہے کہ عدالتی فیصلہ شارٹ آرڈر ہی ہوتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اب ہم مزید التوا کے متحمل نہیں ہو سکتے، آرٹیکل 48 کے تحت اب صدر پاکستان کو ایک تاریخ دینی ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا عابد زبیری صاحب آپ فیصلے کا وہ حکم نامہ پڑھیں، الیکشن کمیشن اگر انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتا تو کیا یہ عدالت دے سکتی ہے، اس پر عابد زبیری نے کہا کہ ہم اس عدالتی فیصلے کے پابند ہیں، فیصلے میں لکھا ہے 21 بلین الیکشن کمیشن کو دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے پاس ایسے احکامات کا اختیار ہے کیا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 14 مئی کے انتخابات کی تاریخ پر عمل نہ ہونے پر کیا کسی نے توہین عدالت کی درخواست دی؟۔ ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے سپیکر نے الیکشن کی درخواست دے تھی ان کی درخواست پر فیصلہ ہوا پھر عمل نہ ہونے پر انہوں نے بھی توہین کی درخواست نہیں دی؟ توہین عدالت کی درخواست نہ لا کر کیا وہ خود بھی ذمہ دار نہیں ہوگئے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی نے اگر اپنا کام نہیں کیا تو عدالت اس کا کام نہیں کرے گی۔ عدالت صرف انہیں بتائے گی کہ نتائج کیا ہوں گے۔ عابد زبیری نے کہا کہ میں یہی چاہتا ہوں کہ الیکشن کی تاریخ نہ دینے والوں کے خلاف عدالت کارروائی کرے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صدر پاکستان کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی چاہتے ہیں؟۔ عابد زبیری صاحب آپ زبردستی ہمیں وہاں لے گئے جہاں ہم نہیں جانا چاہتے تھے۔ آپ چاہتے ہیں بینچ ٹوٹ جائے اور ہم جانتے ہیں ایسا کیوں چاہتے ہیں۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کو روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا کہ عدالت کو بتائیں عام انتخابات کے معاملے پر کیا پیش رفت ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ 29 جنوری کو حلقہ بندیوں سمیت تمام انتظامات مکمل ہو جائیں گے، اور 11 فروی کو ملک بھر میں انتخابات ہوں گے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ 3 سے 5 دن حتمی فہرستوں میں لگیں گے، 5 دسمبر کو حتمی فہرستیں مکمل ہو جائیں گی، 5 دسمبر سے 54 روز گئیں تو 29 جنوری بنتی ہے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے مو¿قف اختیار کیا کہ انتخابات میں عوام کی آسانی کیلئے اتوار ڈھونڈ رہے تھے، 4 فروی کو پہلا اتوار بنتا ہے، جب کہ دوسرا اتوار 11 فروری کو بنتا ہے، 11 فروری والے اتوار کو الیکشن کروائے جائیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک دفعہ تاریخ کا اعلان ہو جانے پر تصور کیا جائے یہ پتھر پر لکیر ہو گی، تاریخ بدلنے نہیں دیں گے۔ ہم اسی تاریخ پر انتخابات کا انعقاد یقینی بنوائیں گے اور عدالت اپنے فیصلے پرعمل درآمد کروائے گی۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ چیف الیکشن کمیشن نے صدر سے مشاورت سے انکار کیوں کیا۔ آئین کے تحت تاریخ کا تقرر صدر کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے تاریخ دینے سے قبل صدر سے مشاورت نہ کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا الیکشن تاریخ سے متعلق صدر سے مشورہ کیا گیا۔ الیکشن کمیشن صدر سے مشاورت نہ کرنے پر کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہے، صدر بھی پاکستانی ہیں اور الیکشن کمیشن بھی پاکستانی ہے۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن صدر مملکت سے آج ہی مشاورت کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو صدرمملکت سے مشاورت کے فیصلے پر آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے حکام صدر پاکستان سے ملاقات کریں گے اور الیکشن کمیشن صدر مملکت سے کم سے کم وقت میں مشاورت کرے گا۔ صدر سے عام انتخابات کی تاریخ پر مشاورت ہوگی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صدر جواب دیں نہ دیں آپ نے دستک ضرور دینی ہے، آج ہی صدر سے رابطہ کریں، فون اٹھائیں اور صدرکے ملٹری سیکرٹری کو ملائیں، اٹارنی جنرل مشاورتی عمل میں آن بورڈ رہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو تاریخ دی جائے اس پرعملدرآمد کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ بغیر کسی بحث کے انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔ سپریم کورٹ نے کل ہی (دو نومبر جمعرات کو) عام انتخابات کے اعلان کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد آج عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ توقع کرتے ہیں کہ صدر سے مشاورت کے بعد کل عدالت کو بتائیں گے، انتخابات کی جو بھی تاریخ طے کی جائے سب کے دستخط ہوں۔ بعد ازاں عدالت نے اپنا تحریری حکمنامہ بھی جاری کر دیا ہے سپریم کورٹ نے انتخابات کیس کے تحریری حکمنامہ میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بتایا کہ حلقہ بندیوں کا عمل جاری ہے جوکہ 30 نومبر کو مکمل ہوجائے گا پھر حتمی حلقہ بندیوں کی اشاعت 5 دسمبر کو ہوگی۔ حلقہ بندیوں کا عمل مکمل ہونے پر الیکشن شیڈول کا اعلان ہوگا۔ سپریم کورٹ کے جاری تحریری حکمنامہ کے مطابق انتخابی پروگرام 29 جنوری تک مکمل ہوگاالیکشن کمیشن نے بتایاکہ عوام کی بھرپور شرکت کیلئے عام انتخابات اتوار کو رکھیں گے ٹائم فریم کے مطابق پہلا اتوار 4 فروری کو بنتا ہے سیاسی جماعتوں کو منشور عوام کو دینے کیلئے الیکشن کمیشن نے 11 فروری کو الیکشن کی تجویز دی۔ سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامہ میں مزیدکہا گیا کہ الیکشن کمیشن صدر مملکت سے آج (دو نومبرجمعرات کو) ہی کو ملاقات کرے اور عام انتخابات کی تاریخ طے کرے، اٹارنی جنرل صدر مملکت سے الیکشن کمیشن کی ملاقات کا انتظام کریں، اٹارنی جنرل اس عدالت کا 23 اکتوبر کا حکم نامہ صدر کو دیں اور معاونت کریں۔ سپریم کورٹ کے حکم نامہ میں مزید کہا گیا کہ امید کرتے ہیں کہ انتخابات کی تاریخ کا معاملہ احسن طریقے سے طے پا جائے گا، انتخابات کی تاریخ کا تعین کر کے عدالت کو آج 3 نومبر کو آگاہ کیا جائے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ لکھوانے کے بعد وکلاء سے مکالمہ کیا کہ آج عجیب کیس ہے ہر کوئی خوش ہے، کسی کو تو کیس ہارنا چاہیے، سیاسی جماعتیں منشور لیکر عوام میں جائیں جو لوگوں کو پسند آیا اسے ووٹ دے دیں گے۔ علاوہ ازیں انہوں نے وکیل الیکشن کمشن سے کہا کہ ہم آپ کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے جب تک آپ اپنا کام کریں گے۔ غلطی ہر کوئی کرتا ہے اس کو ٹھیک کرنا چاہیے۔ بعدازاں، کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔