منڈی بہاوالدین کے ادب سیوک اور بزم اعظم شاہد کے روح ِ رواں ڈاکٹر اعظم شاہد کا فون آیا کہ یونیورسٹی آف گجرات منڈی بہاوالدین کیمپس میں مجلس السنہ و ادب اور بزم اعظم شاہد کے اشتراک سے ایک مشاعرہ منعقد کیا جا رہا ہے اور ہم سب کی خواہش ہے کہ صدارت آپ کریں۔ انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کیمپس کے ڈائریکٹر ظہیرالدین بابر صاحب کے بارے میں بتایا کہ ان کا تعلق علماءاور صوفیاءکے خاندان سے ہے وہ خود بھی ایک صاحب بصیرت انسان ہیں ان کی بھی خواہش ہے کہ صدارت آپ کریں۔ آپ نہ صرف خود تشریف لائیں بلکہ فیصل زمان چشتی صاحب بھی اگر تشریف لائیں گے تو ہمیں بہت خوشی ہوگی۔ میں نے حامی بھر لی اور سوموار 30 اکتوبر ہم نو بجے لاہور سے چل کے بارہ بجے یونیورسٹی کے کیمپس پہنچ گئے۔ جاتے ہی بہت پرتپاک استقبال کیا گیا۔ ڈائریکٹر کیمپس جناب ظہیرالدین بابر اور پروفیسر ابوبکر ہاشمی صاحب نے سٹوڈینٹس کی ٹیم کے ہمراہ پھولوں کے گلدستوں سے نوازا اور اپنے دفتر لیکر آﺅ۔ مشاعرہ شروع ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا سو کسی نے منڈی بہاوالدین کی تاریخی حیثیت پر گفتگو کا آغاز کیا تو ظہیرالدین بابر کو تو گویا دلچسپی کا موضوع مل گیا۔ انہوں نے علاقے کی کالونیئل عہد سے لیکر عہد موجود تک سیاسی سماجی جزیات کے ساتھ بہت ساری معلومات بہم پہنچائیں۔ پھر یونیورسٹی آف گجرات اور منڈی بہاوالدین کیمپس کے انقلابی اقدامات سے روشناس کروایا۔ سو سے زائد بسوں کے زریعے مہیا کی جانے والی ٹرانسپورٹ اور والدین کے لیے سٹوڈینٹ ٹریکنگ سسٹم کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ پھر کچھ دیر بعد مشاعرہ گاہ کی طرف روانگی ہوئی جہاں پہنچے تو ہال نوجوان طلباءطالبات سے بھرا ہوا تھا۔
مشاعرے کا آغاز ہوا تو ایک غیر محسوس سا تناﺅ محسوس ہوا۔ مجھے لگا کہ جب سے یونیورسٹیوں میں مشاعروں کا انتظام و انصرام آزاد منش نوجوانوں کے ہاتھ میں آیا ہے اور سوشل میڈیا فیم شعراءکی لاٹ مارکیٹ میں آئی ہے ان دونوں فریقین کا مقصد ادب یا شعر و سخن نہیں رہا بلکہ عمل ِ ٹھرکیات و مشروبات و ہلہ گلہ جات ہو کر رہ گیا ہے جس کا سنجیدہ اور ذمہ دار اساتذہ اور انتظامیہ کو کسی حد تک احساس ہوگیا ہے کہ یہ بےادبی تو باقاعدہ تعلیمی اداروں میں پنپنا شروع ہوچکی ہے۔ لہٰذا اب وہ کچھ شعراءسٹوڈینٹس کی مرضی سے اور کچھ اپنی مرضی سے بلا لیتے ہیں جس کی وجہ سے آزاد منش نوجوان منتظمین کو لگتا ہے کہ معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور پھر وہ اپنے ردعمل کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ تناو مجھے محسوس ہوا لیکن ایک تو یہ منڈی بہاولدین اور گجرات تھا ، علم و ادب جس مٹی کے خمیر میں ہے ۔ اس سرزمین نے علم و ادب کی جتنی خدمت کی ہے کم ہی کسی کے حصے میں آئی ہوگی۔ دوسرا ڈاکٹر اعظم شاہد کے زیر ِ انتظام بزم اعظم شاہد نے یہاں ایک سے ایک عمدہ اور باوقار مشاعرہ کروایا ہے۔ اس لیے معاملات خود بخود سیدھے ہوتے گئے اور مشاعرہ بنتا گیا۔
مشاعرے کی صدارت کی ذمہ داری راقم الحروف کے سپرد کی گئی ، جبکہ فیصل زمان چشتی ، عمیر نجمی اور رفعت وحید مہمانان خصوصی تھے۔ شعراءکرام میں اعظم شاہد ، حکیم محبوب زاہد ، افکار علوی ، صباحت عروج ، نوشین فاطمہ ، سید رضا نقوی ، سید جواد حاشر اور ماہ نور رانا شامل تھے۔ مشاعرے کی نظامت کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر مظہر اقبال نے ادا کیے اور خوب کیے ادا کیے۔ اگر میں اس مشاعرے کی کامیابی کے نمبر دوں تو سب سے زیادہ ناظم مشاعرہ کو دوں گا۔ انہوں نے آخر تک مشاعرے کو نہایت مہارت اور خوش اسلوبی سے سنبھالے رکھا۔ مشاعرے کے آغاز میں صاحبزادہ پروفیسر محمد ابوبکر ہاشمی نے انسانی قلب و ذہن کے سنوار اور تہذیب کی تعمیر میں شاعری کے کردار پر اتنی شاندار گفتگو کی کہ دل باغ باغ ہوگیا۔ مشاعرہ کا آغاز ناظم ِ مشاعرہ نے حسب روایت اپنے کلام سے کیا جس کے بعد ہر شاعر نے بہت عمدہ کلام پیش کیا۔ سامعین نوجوان طلباءطالبات نے کمال ذوق و شوق سے اور بڑی فراخدلی سے ہر شاعر کو سنا لیکن داد اسی شعر پہ دی جس پہ بنتی تھی۔ آخر میں میری باری تھی۔ میں نے نوجوانوں سے بطور صدر مشاعرہ گزارش کی کہ ہم اہل مشرق تو سیٹیاں بجانے اور تالیاں پیٹنے کی بجا? آہ واہ اور سبحان اللہ کہہ کر داد دیتے ہیں۔ اگر آپ بھی ایسا کریں گے تو مجھے خوشی ہوگی۔ ان خوبصورت اور نہایت با ادب بچوں نے میرا مان رکھا اور اسی مشاعرے کی فضا بدل گئی جس میں مجھ سے پہلے ہررررراااا ہووووووااااااا سے داد دی جا رہی تھی۔ میں نے حمد و سلام سے آغاز کیا۔ پھر پنجابی کی مقبول نظم سنائی کہ یہاں پنجابی کلام بھی بہت محبت اور شوق سے سنا گیا تھا۔ پھر ترنم اور تحت الفظ کے ملاپ سے مشاعرے کو اختتام تک لے گیا۔ سٹوڈینٹس نے میرا مان رکھا اور پوری توجہ ، انہماک اور شوق سے کلام سننے کے ساتھ ساتھ واہ واہ اور سبحان اللہ کہہ کر داد بھی دی اور جہاں بنتا تھا وہاں تالیاں بھی بجائیں۔ ثابت ہوا کہ ہمارے نوجوان روایات کی پاسداری کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ اب یہ یونیورسٹیوں اور کالجز کے اساتذہ کی ذمہ داری ہے اور خود شاعروں کا فرض بنتا ہے کہ مشاعروں کو مشاعرہ باز شعراءاور غیرسنجیدہ شوخے بچوں سے بچائیں۔
مشاعرے کے اختتام پر کیمپس کی کوارڈینیٹر میڈم نایاب طارق نے ڈائریکٹر کیمپس ظہیرالدین بابر کی خدمات کے اعتراف کے طور پر راقم کے ہاتھ سے رسم دستار بندی کا اہتمام کیا اور دیگر مہمانان گرامی کو تحائف پیش کیے۔
٭....٭....٭