سوچئیے صرف ایک دن کا بچہ۔ برتھ سرٹیفیکٹ نہیں بنا۔ ایک دن قبل پیدا ہوا دوسرے دن ظالم دنیا نے واپس اصل منزل کی طرف بجھوا دیا۔ ڈیتھ سر ٹیفکیٹ بن گیا نام ”عدے ابو محسن “ معصوم سانسوں کی ظالمانہ بندش سے ”کربلا“ کی خ±ون آلود مٹی یاد آگئی۔ا±ن کے پیٹ اور ٹانگوں پر کالی سیاہی سے ا±ن کے نام لکھے ہوئے تھے ا±ن کا پکا یقین تھا کہ ہم زندہ نہیں رہیں گے۔مقابل انصاف۔درد۔احساس سے عاری قوم جو تھی یقین پختہ کیسے نہ ہوتا؟ دو پہلوو¿ں کے ساتھ کہ شاید ہمارے بچے بچ جائیں اگر نہیں تو ا±ن کی شناخت ہو سکے۔ شناخت تو پکی ہے۔ ”جنتی پرندے“ جنت الفردوس پہنچ گے۔
نہ دوائی نہ کھانا نہ پانی ہر طرف ہولناک تباہی۔ ظلم کو شرمندہ کرتے مناظر۔ نعشیں ہی نعشیں۔ ویران۔ بنجر۔سخت پتھر دل بھی غش کھا جائے۔ نصیحت۔ ہدایات تو وہ قبول کرتا ہے جس کے دل میں رائی برابر بھی انسانیت ہو۔ یہاں تو ظالم گروہوں کے خمیر ہی بے برکت۔ منحوس ہیں۔ ایک بدخلق۔ متشدد ذہن کےنزدیک ”ریڈ لائن“ کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ جنگ کے قوانین۔اصول۔ ضابطے تو ابتدائے آفرینش سے ”قابض مافیاز“ خاطر میں نہیں لاتے رہے۔21 ویں صدی کے آخیر میں کون پرواہ کرے گا۔
”اگر ہم مر جائیں تو سمجھ لیں ہم ثابت قدم ہیں اور ہم سچے ہیں۔ ع±مر 32سال۔ معروف لکھاری۔ ادیبہ شاعرہ نام ”حنا ابوندا“۔ تعلق ا±س مٹی سے جو صدیوں سے سفاک ترین قبضہ گیری میں ہے۔ قارئین بات ہے ”غزہ“ پر 24گھنٹے مسلط بربریت کی۔ ساری دنیا ایک طرف اقلیتی طبقہ بالکل الگ چونکہ طاقت لا محدود ہے اور ظلم و تشدد کی تاریخ بھی ناقابل بیان خود ”یہودی قوم“ بھی انتہا درجہ کے مظالم۔ اندوہ پر غمزدہ۔ نہ صرف دنیا بھر میں بلکہ اسرائیل میں بھی احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔
دنیا کی ہمدردیاں۔ بیانات کی حد تک ”فلسطین“ کو حاصل ہیں۔ معروف امریکی دانشور ”نوم چومسکی“ نے ہمارے اب تک شائع شدہ ”کالمز“ کی تصدیق کر دی۔ اب واقعی صبر کا پیمانہ لبریز ہو ہی جائے تو اچھا ہے۔ یوں بھی مسلمان کِسی نہ کِسی علاقہ۔ خطہ میں بے گناہ مارے جارہے ہیں تو بہتر ہے کہ متحد ہو جائیں۔ متحدہ مرکز کو کوئی زیر نہیں کر سکتا۔ آپسی سیاست بازی۔ کینہ ختم کر دیں۔ ختم تو انشاءاللہ دشمن ہی ہونگے مسلمان نہیں۔ ”مالک کائنات رحمان۔ رحیم۔ کریم“ کا وعدہ ہے اپنے پیارے ”حبیب خاتم النبین “ سے کہ ا±مت معدوم نہیں ہوگی۔
لمحہ حاضر کی ”فلسطینی “حالت زار اور مسلم ممالک کا زبانی کلامی اظہار مذمت۔ ”نوم چومسکی“ نے ہماری پوری حالت کو چند حروف میں عیاں کردیا۔ ”ا±مت“ کا لفظ برسوں سے لکھنا چھوڑ رکھا ہے کیونکہ ”ا±مت“ صدیوں سے ساکت ہو چکی ہے ہوس جاہ۔ ہوس زر۔ ہوس حیات میں سارا قصور ”اغیار“ کا نہیں۔ ہم اپنی حالت کے مکمل طور پر خود ذِمہ دار ہیں۔ کیا ب±ھول گئے کہ”رب ذی شان کریم“ نے واضح نہیں فرما دیا ترجمہ: اصل زندگی تو آخرت کا گھر ہے کاش وہ لوگ یہ بات جانتے ہوتے (سورة العنکبوت 64)۔
دنیا کی سب سے زیادہ قدرتی وسائل۔ آبادی اور دماغی ذہانتوں کی حامل ”مسلمان قوم“ ہے حد افسوس نہ ہم میسر نعمت بے بہا وسائل کو اپنی ترقی۔ بہبود کے لیے استعمال کر پائے اور نہ ہی اپنی افرادی قوت کو دشمنوں پر دھاک بٹھانے کے لیے کیا۔ دکھ کہ قابل ترین اذہان کا بہترین مصرف بھی ”اغیار“ نے کیا۔ ”اللہ تعالیٰ “ ہماری مدد فرمائیں۔ ہمیں متحد کر دیں۔ مسلم اقوام میں بے حمتی۔ کاہلی۔ غفلت۔ بد اعمالیاں دانستہ نا دانستہ گناہ سب کچھ معاف فرما کر ہم سب کو جوڑ دے آمین۔ آپس میں تعصب۔ نسلی عصبیت۔ حسد چھوٹی بڑی دشمنی ختم فرما دیں۔ آمین ثمہ آمین
”4سالوں“ میں پوری دنیا میں اتنے بچے نہیں مارے گئے جتنے اب تک ”غزہ“ میں شہید کیے جاچکے ہیں۔ بچوں کے بہبود کی تنظیم ”سیو دی چلڈرن“ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ”ایک ہزار بچے“ ملبہ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد نہ ختم ہونے والی بمباری کے باعث بہت بڑھتی جا رہی ہے۔ ”حماس“ کے ابتدائی حملے کی فوٹیج اور خبر جاری ہونے کے بعد جو ردعمل تھا۔ بہت سارے لوگ معترض تھے کہ اتنا بڑا قدم کیوں ا±ٹھایا جب تیاری نہیں تھی۔ ہمارا تجزیہ بھی یہی تھا کہ بس اب خیر نہیں۔ بھلے پوری تیاری نہیں تھی پر پوری دنیا کو ”اسرائیل“ کا خونی چہرہ اپنی اصلیت میں دکھانے کا سہرہ ”حماس“ کے سر بندھتا ہے۔ دوسرا مسلم ممالک کی پے در پے غاضب ریاست کو تسلیم کرنے کی کوششوں کو بریک لگ گئی۔ مسلم ممالک سے تو ”بولیویا“ بہادر ثابت ہوا۔سب سے پہلے ا±س نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کر دئیے۔ نجانے کیوں معلوم ہو رہا ہے کہ سب کچھ ایک طے شدہ۔ منظم پلان کا حصہ ہے ایک تجزیہ۔ اگر ہے تو کچھ بھی چ±ھپا نہیں رہتا تاریخ ضرور بے نقاب کر دے گی جو کندھے استعمال ہوئے اورکرائے گئے۔
”کشمیر اور فلسطین“ کا پس منظر۔ کہانی۔ ناروا ظلم۔ تشدد۔ بے دخلی سب کچھ کا م±شترکہ عنوان ایک ہے کہ کشمیر اور فلسطین بدترین بربریت کا شکار ہیں دونوں کی داد رسی میں عالمی دنیا مکمل طور پر اغماض برت رہی ہے۔ دونوں کے عوام۔ عورتیں۔ بچے۔ گھر بار۔ مال ل±وٹے جا رہے ہیں۔خطہ کی سلامتی۔ سکون ”مقبوضہ کشمیر“ کی آزادی میں مضمر ہے۔ سب بخوبی جانتے ہیں کہ کِسی مقصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے۔ ہمارے لاکھ سیاسی اختلافات ہوں جہاں بات ہو ”ازلی۔ عیار دشمن“ کی۔ وہاں ہم سب ایک ہیں۔ کرکٹ ہو یا جنگ۔ پوری قوم ایک نکتہ پر متحد۔ متفق ہے۔ ظلم بڑھ گیا ہے کہ اب دل رو رو کر د±عا کرتا ہے کہ محصور۔ مظلوم کشمیریوں پر رواں تشدد کا خاتمہ ہو۔ کئی سال بیت گئے کشمیر کو بدترین تشدد کے مرکز میں میں تبدیل ہوئے۔ کہنے کو وقت کتنی جلدی گزر گیا پر جب کشمیری قوم کی حالتِ زار دیکھیں تو دل کلیجی مانند ٹکڑوں میں کٹ جاتا ہے۔ دنیا کا سب سے طویل کرفیو۔ صرف کرفیو نہیں پوری دنیا کے ماتھے پر خون کی چھینٹیں ا±ڑاتا سفاک ترین ”لاک ڈاو¿ن“۔ ایسا لاک ڈاو¿ن جس میں کوئی وقفہ نہیں تھا۔ کوئی کسی بھی لمحہ باہر نہیں نکل سکتا تھا حتیٰ کہ گھروں میں مقید لوگ مقامی سطح پر بھی باہم رابطہ سے محروم رہے۔ یہ محصوری نہیں باقاعدہ پلاننگ تحت قتل عام تھا۔ بلا اشتعال کارروائیاں اِس طرف جاری ہیں تو چنار کے ا±س پارکسی بھی وقت تلاشی۔ نہ دن کی پرواہ نہ رات کے اندھیرے کا لحاظ۔ محاصرے۔ راستوں کی ناکہ بندی۔ جائیداد۔ کاروبار سے جبری بے دخلی۔ کیا یہ سب ”امن پرور ذہن“ کے کام ہو سکتے ہیں ؟ دیر سے سہی پر موسم بدلتا ضرور ہے غم کا ہو یا آزمائش کا۔ ہر دو کے نصیب میں کروٹ لینا لکھا ہے۔
٭....٭....٭