آج یونہی آنسہ احمدسعیداعوان مرحومہ کی یادآئی۔ ایک خاتون جس نے زندگی کی مشکلات کا بڑی بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ وہ گزرے لمحوں کی یادوں کے ساتھ جیون بسرکرنے والی ایک ماضی پرست خاتون تھیں۔سچ تو یہ ہے کہ ماضی پرست بھی وہی ہوتا ہے،جس کا کوئی ماضی ہوتا ہے۔ ڈاکٹرصاحبہ زندگی کے انقلابات کی چشم دید گواہ تھیں۔ ان کے شوہر احمد سعید اعوان مرحوم پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما تھے،یہ ستر کی دہائی کی نظریاتی سیاست کا زمانہ تھا۔ابھی نظریاتی سچائیاں اپنا وجودرکھتی تھیں۔ دونوں اطراف میں مخلص لوگ موجود تھے۔ احمد سعید اعوان کا شمار بوالہوسوں میں نہیں ہوتا تھا، وہ ذوالفقارعلی بھٹومرحوم کے کوڑے کھانے اور جیل یاترا کرنے والے ساتھی تھے۔بھٹو مرحوم سے بہت سے لوگوں کو اختلاف بھی ہوگا،البتہ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ انھوں نے لاکھوں کی تعداد میں ”نئے انسان“ پیدا کیے۔یہی جیالے ان کی اصل قوت تھے،احمدسعید اعوان انھی لوگوں کے سرخیل تھے۔وہ ہرطرح کی مشکلات میں ثابت قدم رہے۔انھی خدمات کی وجہ سے محترمہ بے نظیر بھٹو کوبھی احمدسعید اعوان پر بہت اعتماد تھا، 1988ءکے انتخابات میں احمدسعید اعوان قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ پارٹی کی حکومت میں پہلے انھیں وفاقی وزیر صنعت اور اس کے بعدوفاقی وزیراطلاعات ونشریات مقرر کیا گیا۔بے نظیربھٹو نے اعوان صاحب کو اپنی حکومت کے دوسرے دور میں لاہور ہائی کورٹ کا معزز جج مقرر کیا،سناہے کسی مقدمے کے سلسلے میں انھوں نے بے نظیر کی سفارش کو بھی ماننے سے انکار کردیاتھا،ایسے لوگ اب معدوم ہوگئے ہیں۔
آنسہ صاحبہ انھی ممتاز سیاست دان احمد سعید اعوان کی شریک حیات تھیں۔ان کا اپنا الگ سے ایک تعارف بھی ہے۔آنسہ کی زندگی تعلیم وتدریس کے عمل میں گزری۔گورنمنٹ اسلامیہ کالج برائے خواتین لائلپور میں شعبہ اردو کی سربراہی کی۔ مختلف جامعات سے بہ طور مدرس وابستہ رہیں۔ان کا شمارلائلپورمیں اردو زبان وادب کے سینئر اساتذہ میں ہوتا تھا۔ شاعری کے ساتھ ساتھ ساتھ تنقید و تحقیق سے بھی علاقہ رہا۔انکے چار شعری مجموعے ”آنسہ زیست“، ”سفرلاحاصل“ ”زاد سفر“ اور”رنج سفر“ کے عنوان سے منظرعام پر آئے۔آنسہ نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے معروف افسانہ نگار کرشن چندر کی شخصیت اور فن پرتحقیقی مقالہ لکھ کر پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔انھیں اس جامعہ سے ڈاکٹریٹ کرنے والی اولین سکالر ہونے کا بھی حاصل تھا۔اس کے علاوہ صدر پاکستان کی طرف سے رول آف آنرز اور طلائی تمغہ بھی عطا ہوا،وہ جب بیاہ کر سسرال آئیں تو احمدسعید اعوان اڑھائی سال کی اسیری کے ایام کاٹ کرآئے تھے۔ انھیں سنٹرل جیل جہلم میں دس کوڑے بھی لگے تھے،ان دنوں اعلیٰ حکام کوپی۔آئی۔اے کے ایک جہاز کی ہائی جیکنگ (کے الزام) میں مطلوب تھے۔آنسہ احمد سعید نے اعوان صاحب کی زندگی کے نشیب وفراز دیکھے۔ زندگی کی دھوپ چھاو¿ں میں ان کی مشیر رہیں۔اس دوران میں انھیں امریکا، برطانیہ، کینیا، سعودی عرب، کویت، چین، ہندستان، کوریا، ناروے، سکاٹ لینڈ، سویڈن، متحدہ عرب امارات اور ملائشیا جیسے ممالک کی سیاحت کا موقع ملا۔ بینظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو سے طویل ملاقاتیں رہیں۔ زندگی کا مشاہدہ عمیق تر ہوتا چلا گیا۔اعوان صاحب ایک محبت کرنے والے باپ اور شوہر تھے،ان کی وفات کا سانحہ ان کے اہل خانہ کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ان کی اہلیہ کے ہاں یہ ایک شعری تجربہ بن کر سامنے آیا۔آنسہ احمدسعیداعوان وفات سے پہلے لائلپورکی ایک جامعہ میں شعبہ اردو کی سربراہ تھیں۔ان سے میرااولین تعارف معروف شاعر اور ہمدم اشرف یوسفی کے ذریعے ہوا۔اس کے بعد ان سے ٹیلی فون پر رابطہ رہا،وہ عمرمیں مجھ سے خاصی بڑی تھیں لیکن ہمیشہ بڑے ادب سے بھائی کہہ کرمخاطب ہوتیں۔ یہ تقدس مآب رشتہ میرے لیے ہمیشہ قابلِ قدر رہا۔اتوارکی ایک صبح وہ میرے گھرتشریف لائیں۔انھوں نے بتایا کہ وہ کسی نجی تقریب میں شرکت کے لیے آئی ہیں اور منہ بولے بھائی سے ملاقات بھی اپنے شیڈول میں شامل کرلی۔آنسہ ایک بہت وضعدار لیکن کم گوخاتون تھیں۔اپنے مرحوم خاوندکا ذکر کرتے ہوئے انکی آنکھیں نم ہوجاتی تھیں۔آنسہ احمدسعید نے شایداسی ملاقات میں بتایا تھا کہ ان کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ” زاد سفر“ عدت کے ایام میں تخلیق ہوا۔ان کی شاعری میں ایک عجیب اندازکا کرب شامل ہے۔ کبھی کبھی تویوں لگتاہے جیسے آنسہ کا وجود برصغیر پاک وہند کی کسی قدیم روح کامسکن ہے۔ ہندکی قدیم کوِتاو¿ں،گیتوں اور دوہوں میں مرد محبوب اور عورت عاشق ہے۔آنسہ کا اپنے شوہر سے عشق اسی صدیوں پرانی روایت کا تسلسل ہے۔ ہندستان میں رتن سنگھ راٹھور کی ایک بیٹی میرا بائی بھی تھی،راٹھور راجپوتوں کے گھرانے کی اس شہزادی کی کرشن کے عشق میں لکھی گئی شاعری آج بھی عوامی حافظے کا حصہ ہے،میرا پریم کی دیوانی تھی،اس نے اپنے محبوب کو مختلف ناموں سے پکارا ہے۔گردھر لال،نندلال، گوپال، سانوریا، شیام، من موہن،مراری،مرلی والے،ہری اور پربھو،فی الحقیقت کرشن کنہیا کے روپ ہیں۔
ڈاکٹرآنسہ احمد سعید کے ہاں میرابائی کے ہاں جنم لینے والی انھی مہجور ساعتوں کا کرب دکھائی دیتا ہے۔یہ ایک مرحوم شوہر کی یادوں میں کی گئی نوحہ گری ہے۔آنسہ کی شاعری میں عشق کی جلا کر خاکستر کردینے والی کیفیات اور اس سے زیادہ سماجی عدم شناخت کا دکھ نمایاں ہے۔اس کا اظہار انھوں نے اپنے مضمون ”کہانیاں تھیں کہیں کھو گئی ہیں میرے ندیم“میں خاصی تفصیل کے ساتھ کیا ہے،یہی غم واندوہ آنسہ احمد سعید کی شاعری کا بنیادی موضوع ہے۔یہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں پرندوں کی چہکاریں اور پھولوں کے تختے ہیں۔منتظر لوگ اس مسافر کے بغیر ایک تاریک گوشے میں قیدوبندکی صعوبتیں سہ رہے ہیں۔گھر کے سربراہ کی جدائی کا صدمہ اہل خانہ پر بہت سے انکشافات کے در وا کردیتا ہے۔یہ محض ایک بیوہ خاتون کی داستان غم ہی نہیں بلکہ صنف کے لحاظ سے ایک افسردہ عورت کا بیانیہ بھی ہے،وہی عورت جو اس کاکائنات میں حسن وجمال کا دوسرا بڑا ماخذہے، آنسہ کے غم والم کوسمجھنا اتنا آسان نہیں۔یہ ایک پاکیزہ خیالات کی حامل عورت کی داستان محبت ہے۔اس میں دوانسانوں کے مابین پروان چڑھنے والے لطیف اور مقدس رشتے کا مشاہدہ کیا جاسکتاہے۔ یہ شاعری کا احتساسی انداز ہے،جس طرح کسی تصویر کے عقب میں مصور یا فوٹوگرافر کے کمالات دکھائی دیتے ہیں،ان اشعار میں موجود تخلیق کار کا سراغ بھی بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے۔دھوئیں اور لٹھے کے شہرمیں لفظوں کی صدق رس مینا کاری کا یہ عمل تحسین کے قابل ہے،اس کی قدرکی جانی چاہیے۔
رات تھی جدائی کی آسمان روتا تھا
اور چارسو حلقے ماتمی ہوا کے تھے
ترے بغیر میں جی لوں یہ حوصلہ بھی نہیں
مرے لیے تو کوئی اور در کھلا بھی نہیں
٭....٭....٭