اسرائیل غزہ کو بین الاقوامی امن فوج کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔ بلوم برگ۔
جس طرح اسرائیل کو غزہ میں جوتے پڑ رہے ہیں۔ اس کے بعد تو واقعی وہ یہی چاہتا ہو گا کہ کسی نہ کسی طرح اس مسئلے سے اس کی جان چھڑائی جائے۔ ایک چیونٹی بھی کہتے ہیں اگر ہاتھی کی سونڈ میں گھس جائے یا ایک مچھر وقت کے نمرود کے ناک میں گھس جائے تو ان کی موت یقینی ہوتی ہے۔ کوئی سر پٹک پٹک کر مرتا ہے کوئی سر پر جوتے مروا کر مرتا ہے۔ موت دونوں کا مقدر ہوتی ہے۔ حماس کے القسام والے اس وقت اسرائیل کے لیے درد سر بن چکے ہیں۔ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد بھی اسرائیل ان کو زیر نہیں کر سکا۔ اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کا غرور انہوں نے مٹی میں ملا دیا۔ آج ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کر کے لاکھوں گھروں کو تباہ کر کے بھی وہ ان سرفروش مجاہدوں کو ختم کرنا تو دور کی بات، شکست دینے سے بھی قاصر ہے۔ بلوم برگ ایک عالمی جریدہ ہے ، میڈیا چینل ہے۔ اب اس نے جو رپورٹ شائع کی ہے اس کے مطابق اسرائیل چاہتا ہے کہ غزہ کا کنٹرول عالمی امن فوج کے حوالے کیا جائے تاکہ اسرائیل فلسطینیوں کے غیض و غضب سے محفوظ رہ پائے۔
فی الحال یہ صرف تجویز ہو سکتی ہے کیونکہ اصل میں اسرائیل غزہ سے لاکھوں فلسطینیوں کو بیدخل کر کے مصر میں دھکیلنا چاہتا ہے تاکہ اس طرف سے اسے اطمینان ہو۔ اسی لیے اس نے امریکہ اور یورپی ممالک کے تعاون سے پورے غزہ کو کھنڈر بنا دیا ہے۔ جس کی گلیاں اور سڑکیں لاشوں سے اٹی پڑی ہیں۔ جو زندہ ہیں وہ بھوک و پیاس اور بنا علاج کے مر رہے ہیں۔ اگر واقعی امن فوج غزہ آتی ہے تو اس سے کم از کم فلسطینیوں کو کچھ تو ریلیف ملے گا۔ ورنہ اسلامی مشترکہ یا امن فوج نہ بنی ہے نہ بنے گی نہ کبھی کسی مسلمان ملک کی مدد کو آئی ہے نہ آئے گی۔ کیونکہ اگر ہوتی تو آج اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا۔ کاش ایسے ہی امن فوج کشمیر میں بھی اتاری جائے جہاں پہلے ہی اقوام متحدہ کے امن مبصرین تعینات ہیں تو مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ بھی نکل سکتی ہے
٭٭٭٭٭
لاہور میں نان سٹاپ وارداتیں۔ڈاکو کیشئر سے ایک کروڑ 18 لاکھ چھین کر فرار۔
کراچی کا رونا روتے ہوئے ہم اپنی طرف دیکھنا بھول گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ اب لاہور بھی کراچی کے ہم پلہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں بھی سٹریٹ کرائم اور دیگر جرائم کی وارداتیں جن میں اغوا، زیادتی، قتل، و چوری شامل ہیں کی شرح بڑی تیزی سے بڑھتے ہوئے ہمارا منہ چڑا رہی ہے۔ پولیس کے جاری اعداد و شمار سے کارروائی کی تشہیر سے ہٹ کر اگر صرف روزانہ کے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر جرائم کی خبریں پڑھ یا دیکھ لیں تو لرزا طاری ہونے لگتا ہے کہ لاہور میں یہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ تو باغوں، روشنیوں، خوشبوﺅں کا شہر تھا۔ اب یہ جرائم کا گڑھ کیوں بنتا جا رہا ہے۔ ناجائز اسلحہ کی بھرمار، جرائم پیشہ افراد کی سینہ زوری نے قانون کی عملداری پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ یہ شہر منشیات کا گڑھ بن چکا ہے۔ قدم قدم پر چور اور ڈاکو گھات لگائے بیٹھے ہیں جو راہ چلتی خواتین ہوں یا مرد، تنہا ہوں یا گھر والوں کے ساتھ، کو لوٹ لیتے ہیں مزاحمت پر قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ جابجا پولیس والے ناکے لگائے تلاشیاں لیتے بھی نظر آتے ہیں۔
مگر پھر بھی شہری لٹ رہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی ڈاکو دن دیہاڑے ایک کیشئر سے ایک کروڑ 18 لاکھ روپے چھین کر لے گئے۔ یہ کوئی معمولی رقم نہیں۔ اسکے آگے باقی علاقوں میں 20 لاکھ 5 لاکھ یا 2 لاکھ کی ڈکیتیاں مانند پڑتی نظر آتی ہیں۔ شہریوں کو اب بے حسی کا لبادہ اتارنا ہو گا۔ لاہور جی داروں کا شہر ہے۔ اگر شہری مل کر واردات کرنے والوں کا محاصرہ کر لیں ان پر پتھراﺅ ہی کریں تو یہ اسلحہ بردار درندے مات کھا سکتے ہیں۔ قدیم دور میں بھی جنگلوں میں ر ہنے والے اسی طرح گھیر کر درندوں کا شکار کرتے تھے۔ اب بھی ہمارے ہاں جنگل کا قانون ہی نافذ ہے تو پھر ٹھیک ہے اپنی جان و مال کے تحفظ کے لیے ازخود ہی شہری ان ڈاکوﺅں کو چوروں کو گاڑی تلے کچل کر بھی سبق سکھا سکتے ہیں اور ایسی کئی وارداتیں کامیاب بھی ہوئی ہیں۔
٭٭٭٭٭
خان کی حمایت پر جھوٹا مقدمہ بنایا گیا۔ سارہ انعام گر کر مری یا نامعلوم افراد نے قتل کیا۔ شاہنواز امیر
اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ جو بے گناہ خواتین قتل ہوتی ہیں اغوا ہوتی ہیں زیادتی کا شکار ہوتی ہیں ان کے کیسوں پر بھی یہی بات کہہ کر معاملہ ٹھپ کیا جا سکتا ہے۔ ایک بااثر باپ کا بیٹا کتنی آسانی سے تمام شواہد اور حقائق کی نفی کرتے ہوئے بااثر وکیل کے ساتھ مل کر قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ کبھی کچھ اور کبھی کچھ بیان دے رہا ہے۔ اپنی اہلیہ کے قتل کے اس مقدمے کو اب سیاسی رنگ دے رہا ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ کبھی ارشاد فرما رہا ہے کہ سارہ غسلخانہ میں گر کر چوٹیں لگنے سے مری ہو گی ساتھ کہہ رہا ہے کہ ہو سکتا ہے اسے نامعلوم افراد نے قتل کیا ہو۔ وہ نامعلوم افراد کون ہیں اتنے بڑے گھر کے سیکورٹی کیمرے ہی بتا سکتے ہیں۔ اب قانون نے فیصلہ کرنا ہے عدل کا ترازو جن کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ان گھروں میں قتل ہونے والی مظلوم معصوم عورتوں، لڑکیوں ، ملازماﺅں کے خون ناحق کو رائیگاں جانے دیتی ہے یا مظلوموں کے گھر والوں کو انصاف دلواتی ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔ مگر اب تک کسی شاہ کو سیٹھ کو، سردار کو ان بے نواﺅں کے قتل پر سزا نہیں ہوئی۔ ایک آدھ کیس سے ہٹ کر ہر جگہ
"یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا "
والا معاملہ درپیش ہے۔ سارہ انعام کا تعلق اچھے گھرانے سے ہے۔ وہ اگر سٹینڈ لیں تو ایسی وارداتوں کے آگے بند باندھ سکتے ہیں۔ کب تک یہ حوا کی بیٹیاں، بے وسیلہ ، بے نوا بچیاں یونہی کٹتی رہیں گی ، مرتی رہیں گی۔ ان کا خون ناحق کبھی تو بولے گا، اس کا بھی حساب ہو گا۔ ورنہ ”اس آس پہ اب تک زندہ ہوں بدلے گی کبھی تقدیر میری۔“ یہ بااثر افراد اسی طرح ثناخوان تقدیس مشرق کا مذاق اڑاتے رہیں گے۔ شاید اس کے بعد ہی جب ”مٹ جائے گی مخلوق تو، انصاف کرو گے“ والا مرحلہ شروع ہو گا۔
٭٭٭٭٭
غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کے خلاف دشمنوں کا منفی منصوبہ
خدا خدا کر کے ملک میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کے مرحلے کا آغاز ہو گیا۔ اس پر ہمارے دشمن جل بھن کر کباب ہو رہے ہیں کیونکہ اسطرح ان کے پروردہ عناصر کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔ بات صرف اتنی سی ہے افغان ہوں یا بنگالی، ازبک ہوں یا ایرانی، کرد ہوں یا ہزارہ والے۔ ہر اس شخص کو جو غیر قانونی طریقہ سے پاکستان آیا ہے یہاں رہ رہا ہے۔ کام کاج کاروبار کر رہا ہے۔ انہیں اب بہرحال واپس جانا ہو گا۔ دنیا کے کسی ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے اور وہاں رہنے کاروبار کرنے کی گنجائش نہیں۔ بس اتنی سے بات ہے کہ مہاجرین کو نہیں نکالا جا رہا۔ غیر قانونی طور پر آنے والوں کو واپس کیا جا رہا ہے۔ اس پر شور و غوغا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب جن لوگوں نے غیر قانونی طریقے سے جعلی شناختی کارڈ پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات حاصل کیں وہ یہاں جائیدادیں اور دکانیں خرید کر بیٹھے ہیں۔ ان کو نکالنے کے ساتھ جنہوں نے دو نمبری سے یہ دستاویزات بنانے میں مدد دی ان کو بھی کڑی سزا دی جانی چاہیے۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں ایک افغان ہزارہ ایم پی اے بنا۔ اسی طرح ایک پشتون مہاجر بھی ایم پی اے اور وزیر تک بنا ہے۔ اس سے زیادہ ظلم اور کیا ہو گا پاکسانیوں کے ساتھ۔
اب ملک دشمن عنا صر اس مرحلے میں شرپسندی پھیلا کر پرامن واپسی کی راہ میں روڑے اٹکا کر تصادم کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کا الزام سیکورٹی فورسز پر عائد کر کے انہیں بدنام کیا جا سکے۔شرپسندوں کے اس منصوبے سے ہمیں ہوشیار رہنا ہو گا۔ان غیر قانونی تارکین وطن نے پہلے پاکستان کو مہاجرستان اور پھر مسائلستان بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ اب براہ راست ریاست اور قانون کی رٹ کو بھی چیلنج کرنے لگے ہیں۔ افغان حکومت کی طرف سے واپس آنے والوں کا خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔ امید ہے باقی ممالک بھی اپنے باشندوں کی واپسی پر انہیں خوش آمدید کہیں گے۔