لاہور ہائیکورٹ میں سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کے حوالے سے دائر درخواستوں پر جسٹس شاہد کریم نے سماعت کرتے ہوئے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو شہر بھر میں فوری سموگ ایمرجنسی نافذ کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے حکم صادر کیا کہ آلودگی پھیلانے والی فیکٹریوں کو تاحکم ثانی سیل کیا جائے، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بھی بند کرنے کا حکم دیتے ہوئے کمشنر لاہور کو ہدایت کی گئی کہ آلودگی پھیلانے والوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کیا جائے۔ دوسری جانب ماہرین ماحولیات نے سموگ سے متعلق اجلاس میں بریفنگ میں بتایا کہ سکولوں میں چھٹی اور ٹرانسپورٹ بند کرنے سے فرق نہیں پڑے گا۔ پنجاب بھر میں سموگ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور ایک ماہ کے لئے تمام سرکاری و نجی سکولوں میں طلبا و طالبات کیلئے ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا۔
فضائی اور ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنا صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر ہر سال کی طرح امسال بھی لاہور شہر کے فضائی اور ماحولیاتی آلودگی میں پہلے نمبر پر آنے سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ گزشتہ سال سے اب تک انتظامی سطح پر فضائی آلودگی سے بچنے کے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ بے شک پاکستان کیخلاف بھارتی عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں‘ مگر فصلوں کی باقیات جلانا اس کا اندرونی معاملہ ہے۔ اسکے بداثرات سے بچنے کیلئے ہمیں خود اقدامات کرنا ہونگے۔ لاہور ہائیکورٹ کی ہدایات کی روشنی میں دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں‘ فیکٹریوں اور کارخانوں کیخلاف کارروائی عمل میں لا کر اس فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ مرغیوں کی آلائشیں لے جانیوالی گاڑیاں اور کوڑا کرکٹ کے ٹرک بغیر حفاظتی اقدامات کے سڑکوں سے گزرتے ہوئے تعفن اور وائرس پھیلانے کا باعث بنتے ہیں‘ خاکروب گلی محلوں میں گٹر صاف کرکے ان کا گند وہیں چھوڑ جاتے ہیں۔شہر میں جگہ جگہ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر سے اٹھنے والا تعفن ہیضہ اور ڈائریا کا باعث بن رہا ہے۔ فضائی آلودگی سے عوام گلے‘ سانس اور آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ عوام الناس احتیاطی تدابیر کے طور پر باہر نکلتے وقت منہ پر ماسک لگائیں‘ گھر واپس آکر منہ ہاتھ دھوئیں اور غرارے کریں۔ اس طرح کسی حد تک آلودگی کے بداثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ لاہور شہر میں ایمرجنسی نافذ ہونا اور لاہورہائیکورٹ کی طرف سے ہدایات جاری کرنا صوبائی ڈیزاسٹرمینجمنٹ اور ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔