اسرائیل اور حماس کی جنگ اپنا تقریباً ایک مہینہ پوری کرنے والی ہے۔ اسرائیلی بمباری جس میں تعطل نہیں بلکہ ہر آنے والے روز غزہ پر زیادہ شدت سے جاری ہے اس کی وجہ سے یروشلم شہر پر بھی جنگ کے غیر معمولی اثرات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ہر وقت پر رونق رہنے والے اور اہم عالمی سیاحتی مرکز ہونے کے باوجود تقریباً ایک ماہ سے یروشلم سونا سونا ہو گیا ہے۔ خاموش اور مغموم سی فضا سے دوچار ہے۔تجارتی گلیاں اور چوک چوراہے خاموش اور شہر پر سناٹا غالب آ چکا ہے۔ جنگی فضا نے خوف کے ساتھ معاشی مندی کا تحفہ دیا ہے۔ اس لیے دکانوں پر گاہکوں کے نہیں خوف اور بے یقینی کے ڈیرے ہیں۔اس صورت حال میں اکثر دکان داروں نے دکانیں بند رکھنا شروع کر دی ہیں۔ بچے کھچے سیاحوں کے پاس بھی اب کیش سے محروم نظر آتے ہیں۔ہر طرف مذہبی مقدسات کے بکھرے ہونے اور سارے مذاہب کی یاد گاروں کا مرکز ہونے کی وجہ سے یروشلم میں سیاحوں کی ہمہ وقت موجودگی کی جگہ اب سناٹے اور خوف نے لے لی ہے۔ان بچے کھچے سیاحوں کے لیے اب محض چند دکاندار ہی دکانیں کھولتے ہیں۔ یہ دکاندار ہر روز سیاحوں کا انتظار کرتے ہیں۔48 سالہ مروان عطیہ ایک ایسے دکاندار ہیں جو تیسری نسل سے یروشلم میں سیاحوں کے لیے گائیڈز کی خدمات پیش کرنے کے علاوہ سیاحوں کی دلچسپی کے سووینئیرز کا کاروبار کرتے ہیں۔مروان عطیہ کی انہیں سووینئیر کی دکان چلاتے ہیں۔ مگر عطیہ کا کہنا ہے کہ اب کاروبار کوئی نہیں، اب شہر میں سیاحتی صنعت باقی نہیں رہی ہے۔' اس کا غمزدہ لہجے میں کہنا تھا ' ہمارے کاندان ہیں، بیوی بچے ہیں، لیکن اب کاروبار نہیں رہا ہے۔ پیسہ ہے ، نہ زندگی ۔ کوئی کیسے پیسہ خرچ کر سکتا ہے جب اس کے پاس پیسہ ہو ہی ناں۔' ؟یہ صورت حال یروشلم میں اسکے باوجود ہے اس شہر میں یہودی عیسائی اور مسلمان سبھی مذاہب کے زائرین اور سیاح آتے رہتے تھے۔ کہ یہاں سبھی کی مذہبی دلچسپی کے مقامات ہیں۔ لیکن یہ سیاحتی کاروبار بھی ٹھپ ہو چکا ہے۔غزہ میں جاری بارود اور خون کی بارش اور ہزاروں فلسطینی بچوں کے لاشوں دنیا کے فیصلہ سازوں کو جھنجوڑ سکیں یا نہیں لیکن کم از کم یروشلم کے باسیوں اور یہاں آنے والوں کوان کی خبر ضرور ہے۔ اس لیے شاید سوگ میں یروشلم میں بھی اپنے اوپر بے رونقی اور غم کی چادر تان لی ہے۔31 سال کے ایک اطالوی طالبعلم نے کہا ' جنگ سے پہلے یہ شہر زندہ تھا،زندگی چلتی پھرتی نظر آتی تھی ۔ لوگ یہاں عبادت کرتے اور اپنے مسائل اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے تھے۔ لیکن اب یہ خالی ہے۔ اب یہاں لوگ ہی نظر نہیں آتے۔'اسرائیل کی اس تباہ کن جنگ کو جاری اور ہر روز کی بمباری کو دیکھتے ہوئے بہت سے ملکوں کی فضائی کمپنیوں نے اسرائیل کے لیے پروازیں بند کر دی ہیں۔ اب یہاں سیاح بس اکا دکا ہوتے ہیں، نہ ہونے کے برابر۔24 سالہ فرانسیسی سیاح ایک مختلف شخص ہے۔ وہ اس ماحول کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا خواہش مند ہے۔اس لیے یہاں ٹکا ہوا ہے۔ وہ اردن کے راستے بڑی بحث کے بعد یہاں اس ہفتے کے شروع میں زمینی راستے سے یہاں پہنچ سکا ہے۔ اسے بھی اسرائیلی پولیس کی طرف سے جگہ جگہ روکا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ لوگ بہت حساس ہیں وہ نہیں جانتے میں کون ہوں اور کہاں سے ہوں۔'مسجد اقصیٰ میں بھی نمازیوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ جبکہ چیک پوائنٹس پر نگرانی اور سڑکوں کرگشت سخت کر دیا گیا ہے۔ مقامی فلسطینی خوف ہراس محسوس کرتے ہیں۔ کہ مغربی کنارے میں اس ایک مہینے میں کم از کم دو بار بمباری ہو چکی ، متعدد یہودی آباد کاروں کے حملے ہو گئے اور 130 فلسطینی شہید ہو چکے ہین۔ جنازے تک محفوظ نہیں ہیں، ان پر بھی فائرنگ کر دی جاتی ہے۔ اس لیے یروشلم خاموش ہے ، غمزدہ ہے اور خوشی کے منظرنامے سے محروم ہے۔
یروشلم بھی بے رونق ہو گیا۔ سیاح غائب ، دکانیں بند
Nov 03, 2023 | 09:32