پاکستان کی وزارت خزانہ نے عالمی مالیاتی فنڈکے قرض پروگرام پرعمل درآمد کے حوالے سے کہا ہے کہ اقتصادی جائزے کے تحت تمام شرائط پر عمل درآمد مکمل ہو چکا ہے۔گذشتہ دنوں اسلام آباد میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ایک اجلاس میں ملک کا دورہ کرنے والے وفد کو حکام نے یقین دلایا کہ 3 بلین ڈالر کے قرض پروگرام کے تحت عالمی قرض دہندہ کی طرف سے درکار تمام بنیادی اقتصادی اہداف کو حاصل کر لیا ہے جس سے ملک کو 710 ملین ڈالر کی قسط کے حصوال کی راہ ہموار ہو جائے گی۔نیتھن پورٹر کی سربراہی میں عالمی مالیاتی فنڈ کے مشن نے دو ہفتے کے طویل جائزہ عمل کے سلسلے میں پہلے مرحلے کے طور پر وزارت خزانہ کا دورہ کیا جہاں انہیں نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر، مرکزی بینک کے گورنر جمیل احمد اور پاکستان کے ٹیکس وصول کرنے والے ادارے سمیت حکام نے اہم اقتصادی اشاریوں پر بریفنگ دی۔آئی ایم ایف ٹیم کی جانب سے ممکنہ مثبت جائزے کے بعد دسمبر میں فنڈ کا ایگزیکٹو بورڈ مختصر مدت کے قرض کے تحت دوسری قسط کی منظوری ممکن ہو سکے گی۔پاکستان کو جولائی میں عالمی مالیاتی فنڈ سے معاشی استحکام کے پروگرام کی مد میں 3 بلین ڈالر کی رقم کا نو ماہ پر محیط اسٹینڈ بائی قرض منظور ہوا تھا جس کے تحت 1.2 بلین ڈالر کی پہلی قسط موصول ہو چکی ہے۔ قرض کے حصول کے حوالے سے یہ انتہائی اہم پیشرفت ایک ایسے وقت میں ممکن ہوئی جب حکومت پاکستان بیرونی ادائیگیوں کے ڈیفالٹ کو روکنے کے لیے کوششوں میں مصروف تھی۔وزارت خزانہ کے ایک اعلامیہ کے مطابق ملاقات کے آغاز میں نگران وزیر برائے خزانہ، محصولات، اور اقتصادی امور ڈاکٹر شمشاد اختر نے وفد کا خیر مقدم کیا اور اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (SBA) پر پیش رفت سے آگاہ کیا۔وزیر خزانہ نے مشن کو حکومت کی طرف سے اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کیے جانے والے مالیاتی اقدامات سے تفصیلاََ آگاہ کیا۔ اجلاس میں جامع اصلاحات، ایف بی آر کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات اور گردشی قرضوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی پر بھی بات چیت کی گئی۔اجلاس کی تفصیلات سے باخبر حکام کے مطابق آئی ایم ایف کی جائزہ ٹیم کو بتایا گیا کہ ٹیکس اور پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی وصولی ہدف سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ مارکیٹ کے طرف سے طے کئے گئے کرنسی تبادلے کے نرخوں کی پالیسی پر بھی عمل کیا جا رہا ہے۔حکومت کے منظم مالیاتی انتظام کی بدولت اس وقت ملک کے پاس 400 ارب روپے سے زیادہ کا بنیادی سرپلس ہے جس میں بڑا حصہ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں پہلے ہی گردشی قرضے پر قابو پانے کے لئے اضافہ کیا جا چکا ہے۔آئی ایم ایف کے مشن چیف، نیتھن پورٹر نے پہلی سہ ماہی کے اہداف کو پورا کے حوالے سے حکومت کے عزم کو سراہا۔انہوں نے ملک کے معاشی استحکام کے لیے کی جانے والی کوششوں کو جاری رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاملات پر پیش رفت کے حوالے سے معاشی ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ حکومت نے دوسری قسط کے حصول کے لیے آئی ایم ایف قرض پروگرام کے تحت مقرر کیے گئے تقریباً تمام اہداف پورے کر لیے ہیں۔ تاہم انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے محتاط رہنے کی ضروت ہے اور مالیاتی نظم و ضبط کوپائیدار بنیادوں پر یقینی بنانا ضروری ہے۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی سینئر ریسرچ اکانومسٹ عافیہ ملک نے عرب نیوز کو بتایا کہ حکومت نے توانائی کے شعبے میں آئی ایم ایف کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے گیس اور بجلی کے نرخوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے جبکہ دیگر محصولات کے اہداف بھی براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس کے ذریعے پورے کیے گئے ہیں۔حکومت کے سابق اقتصادی مشیر ہارون شریف نے کہا کہ دوسری قسط کے لیے پیشگی شرائط میں سے اکثریت کو پورا کیا گیا ہے جس میں اہم ترین اہداف میں سے 7 سے 7.5 فیصد کے درمیان مالیاتی خسارے کی حد بھی شامل تھی ۔انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ حکومت نے اہداف کے حصول کے لیے درآمدات، ترقیاتی بجٹ اور سبسڈیز میں کمی کی ہے، اور اب یہ سب اقدامات آئی ایم ایف کے مثبت جائزے کے لیے انتہائی اہم پیش رفت ہے۔تاہم شریف نے خبردار کیا کہ حکام نے کرنسی کی شرح تبادلہ سمیت ذیادہ تر اقدامات انتظامی اقدامات کے ذریعے اٹھائے ہیں اور آئی ایم ایف یہ دیکھنا چاہے گا کہ یہ اقدامات پائیدار نوعیت کا حل ثابت ہوتے ہیں کی نہیں۔