بانی پی ٹی آئی کا فیصلہ وہ خود ہی کریں گے، یہ بات طے ہے کہ مقتدر حلقوں سے کوئی بھی بات چیت براہ راست ہو گی تب ہی معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی بھی ذریعہ اتنا موثر یا پھر جاندار ہونے کے امکانات کم ہیں۔ چونکہ پاکستان تحریک انصاف میں اس وقت بھی کوئی ایسا شخص نہیں جو اس سطح پر اس اتھارٹی کے ساتھ بات کر سکتا ہو، اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف میں لوگوں کی خواہشات ہو سکتی ہیں، مختلف خیالات ہو سکتے ہیں اور جس کے پاس جو معلومات ہیں وہ محدود ہیں یا کچھ بہتر ہیں اس بنیاد پر گفتگو کر لیتا ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ نواز کی طرح کا کوئی ایسا نظام موجود نہیں ہے کہ میاں نواز شریف کی عدم موجودگی میں پارٹی قیادت سٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے میں رہے اور کہیں بھی کسی بھی سطح پر تعلقات میں تلخی کو کم کرنے اور معمول پر لانے کے لیے بات چیت کر سکے۔ اس صورت حال میں ایک پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی ایسی سیاسی بیساکھیوں کا سہارا لینے کی سوچ نہیں رکھتے۔ یہ لکھنے کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی ہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف میں مختلف لوگ مختلف سیاسی سوچ اور خیالات رکھتے ہیں اور وہ ان خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹرسیف نے پاکستان تحریک انصاف کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو لوگ جمہوریت کو دوبارہ اپنی راہ پر لاسکتے ہیں پی ٹی آئی ان سے رابطے میں ہے۔ ہماری کوشش ہے اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام فریقین سے پی ٹی آئی کی انڈر اسٹینڈنگ ہو تاکہ بانی پی ٹی آئی اور دیگر رہنما رہا ہو سکیں مگر پی ٹی آئی کا ہدف ڈیل نہیں ہے۔ کیسز بنانے والوں کو اب خود سمجھ آگئی ہے اسی لیے بشریٰ بی بی کی رہائی کے بعد مزید کیسز نہیں بنائے گئے۔
بیرسٹر سیف یہاں رابطوں کی تصدیق کر رہے ہیں لیکن ایسا مشکل ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے کوئی اور بات چیت کرے اس بارے کوئی بھی فیصلہ وہ خود ہی کریں گے یہ کسی اور کے بس کی بات نہیں ہے۔ دراصل جو لوگ بانی پی ٹی آئی سے جیل میں مل کر آتے ہیں وہ ساتویں آسمان پر ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بہت بڑی کامیابی ملی ہے جو نہیں مل پاتے وہ خاموشی سے ادھر ادھر دیکھتے رہتے ہیں لیکن وہ دونوں طرح کی قیادت جو بانی پی ٹی آئی سے رابطے میں ہے اور وہ جو رابطے میں نہیں ہے یا وہ جو کہیں رابطے کی کوشش کرتے رہتے ہیں یہ سب مل کر بھی نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ان میں سے کسی کے پاس فیصلے کا اختیار نہیں ہے، فیصلہ بانی پی ٹی آئی نے خود کرنا ہے۔ ویسے بھی ملک میں جس تیزی کے ساتھ حالات بدلتے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے کسی بھی معاملے کہیں بھی کوئی حتمی رائے قائم کرنا بہت مشکل ہے۔
یاد رہے کہ جب ڈی جی آئی ایس پی آر سے مئی میں کسی ڈیل کے امکان کے متعلق پوچھا گیا تو فوجی ترجمان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ فوج کا کوئی سیاسی کردار نہیں۔ اس مرتبہ بھی فوج کے ذریعے ڈیل کی باتوں کی عسکری ذرائع تردید ہی کر رہے ہیں اور یہی سننے میں آ رہا ہے کہ فوج کا موقف غیر سیاسی رہنے کے حوالے سے ہے اور سیاسی معاملات میں کوئی پیشرفت سیاسی جماعتوں کے مابین بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ عمران خان 1997 کے الیکشن کے بعد اکیلے رہ گئے تھے، پھر دو ہزار دس گیارہ میں انہوں نے اکیلے تحریک شروع کی اور دو ہزار اٹھارہ تک اس حتمی نتیجے تک پہنچ گئے اس دوران لوگ آتے جاتے رہے لیکن اکیلے پارٹی کی بنیاد رکھنے سے 2018 میں اکیلے حکومت بنانے کے بعد وہ آج قید میں بھی تنہا ہی ہیں، انہوں نے حکومت بھی تنہا ہی کی تھی اور اب اگر کوئی بات چیت ہوتی ہے تو وہ بھی بانی پی ٹی آئی خود ہی کریں گے۔ پاکستان تحریک انصاف بانی کے گرد ہی گھومتی ہے۔ اس لیے ان ہے ساتھ انفرادی طور پر ہی ڈیل کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال بانی پی ٹی آئی کی قید کے دنوں میں ان کی عدم موجودگی میں پاکستان تحریک انصاف کا حال سب کے سامنے ہے۔ جلسے کا اعلان کرتے ہیں، منسوخ کرتے ہیں، جلسہ کرتے ہیں بروقت پہنچ نہیں پاتے، جلسے کے انعقاد پر قیادت میں اختلاف ہوتا ہے، کون عوام سے مخاطب ہو گا کیسے ہو گا کب ہو گا، کیسے مختلف معاملات کو حتمی شکل دینی ہے یا منطقی انجام تک پہنچانا ہے یا اہداف کا تعین کرنا ہے یا ہدف حاصل کرنے کی طرف کیسے جانا ہے موجودہ لوگوں میں سے کوئی ایسا نہیں جو یہ کام کر سکتا ہو ان حالات میں کیا بات چیت ہونی ہے اور اس کا کیا نتیجہ نکلنا ہے۔ جیسے ابھی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کہتے ہیں کہ پْرامن رہ کر بہت ماریں کھائیں، اب سر پر کفن باندھ کر نکلیں گے، نو نومبر کو صوابی انٹرچینج پر بڑا اجتماع کریں گے اور اس کے بعد فائنل کال دیں گے۔ بانی پی ٹی آئی سے بڑے عرصے بعد ملاقات ہوئی، ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے وہ قابل مذمت ہے، خبر دار کررہا ہوں یہ رویہ قابل برداشت نہیں۔ ہم نے ایک پلان بنایا ہے اس پر کام شروع ہے، فائنل کال کیلئے تیار ہیں حکومت سے جان چھڑانی پڑے گا، ہم سروں پر کفن باندھ کر نکلیں گے۔
علی امین گنڈا پور کفن باندھنے کے بجائے اگر جماعت کو جوڑنے اور قیادت میں اتحاد و اتفاق قائم رکھنے پر توجہ دیں تو زیادہ بہتر ہے۔ جلسے کی منسوخی یا تبدیلی کا اعلان سیاسی طور پر زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے حوالے سے گذشتہ روز بھی لکھا تھا آج پھر ان کا ذکر آیا ہے سو انہیں چاہیے کہ اس منصب پر رہتے ہوئے ان کی ذمہ داری صرف پارٹی کارکنان کو مشتعل کرنا ہی نہیں یا انہیں متحرک رکھنا ہی نہیں ہے بلکہ انہیں صوبے میں انتظامی معاملات کو بھی چلانا ہے۔ انہیں اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔
آخر میں عصمت طاہرہ کا کلام
لمبے قد میں بونے لوگ
اف یہ آدھے پونے لوگ
منہ سے بولیں ، موتی رولیں
آنکھ سے اوجھل کچلا گھولیں
ان کی باتیں زہر کی پڑیاں
ان سے ملنا جان کا روگ
لمبے قد میں بونے لوگ
اف یہ آدھے پونے لوگ
خوش گفتار ھیں چرب زباں ھیں
پھر بھی ان کے مکّر عیاں ہیں
سانپ کا کاٹا پھر بچ جائے
یہ کاٹیں تو سانس نہ آئے
ڈس لیں جن کو شہد زباں سے
جل جائیں انکے سنجوگ
لمبے قد میں بونے لوگ
اف یہ آدھے پونے لوگ