امریکی انتخابات اور اقوام عالم

دستورِ ازل ہے کہ کسی بھی ملک و قوم کی داخلی و خارجی پالیسیاں کلی طور پر قومی سود و زیاں کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دی جاتی ہیں۔ نازیوں کے خلاف دوسری جنگ عظیم سویت یونین نے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر لڑی۔ اسے حالات کی ستم ظریفی کہیں یا کوئی نام دیں، ابھی جنگ کے خاتمے کو جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ امریکہ اور سوویت یونین میں سرد جنگ کا آغاز ہو گیا اور یہ جنگ سوویت یونین کے اندر وقوع پذیر ہونے والا شکست و ریخت کا عمل مکمل ہونے کے باوجود ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں جاری و ساری ہے۔ امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی و دفاعی ترقی کو مستقبل بعید میں اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے اْس کے ساتھ سیاسی و سفارتی محاذآرائی کی کیفیت میں رہتا نظر آتا ہے۔ ’’مفادات مشترک ہوں اور حلیف، ٹکرائیں تو حریف‘‘ والا کلیہ اپنی ہمہ گیری کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر بھی یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مصر اور بھارت غیر جانبدار ممالک کہلانے کے باوجود کبھی سوویت بلاک میں ہوا کرتے تھے، اب امریکہ کے قریب آ گئے ہیں۔ ایران کبھی خطے میں امریکہ کا سکہ بند حلیف ہوا کرتا تھا مگر اب روس اور چین کے ساتھ کھڑا ہے۔ یوکرائن سوویت یونین کا حصہ ہوا کرتا تھا، اب دونوں حالتِ جنگ میں ہیں۔ امریکہ اور نیٹو میں شامل ممالک کھلے عام یوکرائن کا ساتھ دے رہے ہیں۔ سعودی عرب اپنے ہم خیال خلیجی ممالک سمیت مستقل بنیادوں پر خم ٹھوک کر ہمہ وقت امریکہ کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ 
یونی لیٹرل پاور کہلوائے جانے کے باوجود دنیا میں وقت کے ساتھ ساتھ امریکی رعب و دبدبے اور عزت و تکریم میں کمی آرہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس کی منافقانہ اور دوہرے پن پر مبنی خارجی پالیسیاں اور اقدامات ہیں۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی صدر، کمفرٹ ایرو کے مطابق، ’’امریکہ اخلاقی میدان میں ہار رہا ہے۔ عالمی کھلاڑی دیکھ رہے ہیں کہ یوکرین میں روس کے خلاف امریکی پیمانہ اور ہے اور غزہ میں اسرائیل کے بارے میں کچھ اور‘‘۔ عراق پر کیمیائی ہتھیار بنانے کا جھوٹا اور من گھڑت بیانیہ بنا کر پوری دنیا میں اس کا ڈھنڈورا پیٹنا، اپنے اتحادیوں سے مل کر اسے راکھ کا ڈھیر بنانا اور بعد ازاں ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہنا کہ عراقی کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں ان کو ملنے والی معلومات غلط تھیں، اس کے عالمی وقار کو بری طرح گہنائے جانے کے لئے کافی ہے۔ افغانستان سے ذلت آمیز انخلا بھی اس کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا چکا ہے۔ خود کو بہ تکرار جمہوریت کا علمبردار کہنے کے باوجود عملاً بہت سے ممالک میں جمہوریت کی بساط لپیٹ کر اس کے عوام پر آمریت مسلط کرنے کا باعث بھی بنا ہے۔ جولائی 1813ء  میں اسی کی آشیرباد سے جنرل عبدالفتاح السیسی کا مصر کے پہلے منتخب اسلام پسند جمہوری صدر، محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹانا ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ روس، چین اور شمالی کوریا کو جمہوریت کا درس دینے والا، دنیا کے بہت سے ممالک میں سول و ملٹری ڈکٹیٹر شپ اور بادشاہت کی سرپرستی کر رہا ہے۔ وہ اصولوں کی پاسداری کرکے پر وقار بننے کی بجائے اپنا الو سیدھا کرکے بے توقیر ہو رہا ہے۔ امریکہ میں صدارتی انتخابات کی تاریخ نزدیک آتے ہی اسکے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہر ملک دونوں جماعتوں کی انتخابی سرگرمیوں، ٹی وی پر ہونے والے صدارتی امیدواروں کے مباحثوں ، انتخابی تقریروں، اشاروں کنایوں میں ادا ہونے والے مکالموں، میڈیا ہاؤسز کے تبصروں اور مختلف انتخابی جائزوں کا بغور مشاہدہ کرتا ہے اور ممکنہ طور پر جیتنے والی جماعت کی خارجہ پالیسی کے مطابق اپنا لائحہ عمل ترتیب دیتا ہے۔ 
ایک دور تھا جب دونوں بڑی جماعتوں کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوا کرتا تھا مگر اِس بار ریپبلکن پارٹی کی طرف سے رونالڈ ٹرمپ کی بطور صدارتی امیدوار نامزدگی سے صورت حال میں واضح تبدیلی کے آثار نمودار ہو گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ رونالڈ ٹرمپ صدر منتخب ہونے کی صورت میں کچھ نیا پن دکھانے کے موڈ میں ہیں۔ ٹرمپ داخلی طور پر اقتصادیات، امیگریشن، ٹیکس، اسقاط حمل، جرائم، صحت اور ماحول کے تحفظ کے شعبوں میں موجودہ صدر کی اکثر و بیشتر پالیسیوں میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں لانے کے خواہشمند دکھائی دیتے ہیں۔ 
خارجی امور پر تو وہ بڑی بڑی تبدیلیوں کی بات کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ اپنی سربراہی میں اب تک ہر معاملے میں نیٹو ممالک کو ساتھ لے کر چلا ہے مگر ٹرمپ نے نیٹو سے الگ ہونے کی بات کر ڈالی ہے۔ اس سے نیٹو ممالک اَنگْشت بَہ دَنداں، محوِ حیرت ہیں۔ روز گوٹیموئیلر، نیٹو کی سابق ڈپٹی سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ ’’ڈونلڈ ٹرمپ ’یورپ کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہیں کیونکہ نیٹو سے الگ ہونے کی ان کی دھمکی اب تک ہر کسی کے کان میں گونج رہی ہے‘‘۔ ٹرمپ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ وہ، جی ڈی پی کا صرف دو فیصد دفاع پر خرچ کرنے والے نیٹو ممالک کو اپنا دفاعی بجٹ بڑھانے پر مجبور کر دیں گے۔   
ٹرمپ اپنی حریف صدارتی امیدوار، کملا ہیرس پر دورِ حاضر میں طرزِ کہن کی نمائندہ ہونے کی پھبتی کستے ہیں۔ جیتنے کی صورت میں وہ اسرائیل کو غزہ میں مزید من مانیاں کرنے کا مواقع دینا چاہتے ہیں۔ وہ عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی بھی بات کر رہے ہیں۔ اب تک امریکہ اور نیٹو ممالک کھلے بندوں جنگ میں یوکرائن کا ساتھ دے رہے ہیں۔ موجودہ جاری صورت حال کے برعکس ٹرمپ نے ماسکو سے گفت و شنید کے ذریعے یوکرین کے معاملے پر ڈیل کرکے جنگ ختم کرنے اور یوکرین کی مالی اور عسکری امداد بند کرنے کی بات بھی کر ڈالی ہے جبکہ کملا ہیرس کہتی ہیں، ’’مجھے یوکرین کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے پر فخر ہے۔ میں یوکرین کیساتھ کھڑی رہوں گی اور اس بات کو یقینی بناؤں گی کہ یوکرین اس جنگ میں حاوی ہو‘‘۔ ٹرمپ ’گلوبلزم کے بجائے امریکنزم‘ کی بات کرتے ہیں جبکہ ڈیموکریٹس اس عمل کو روسی صدر کی حوصلہ افزائی قرار دیتے ہیں۔ 
کچھ انتخابی سروے کملا ہیرس کی برتری کی نشاندہی کر ریے ہیں تو کچھ مقابلے کو انتہائی سخت قرار دے رہے ہیں، کچھ سات ریاستوں ایریزونا، جارجیا، مشی گن، نیواڈا، شمالی کیرولینا، پینسلوینیا اور وسکونسن کو ’’سوئنگ سٹیٹس‘‘ کا نام دے کر انہیں وائٹ ہاؤس کی چابیاں قرار دے رہے ہیں اور کچھ یہ تک کہہ رہے ہیں کہ دونوں صدارتی امیدواروں میں سے جو بھی جیتے گا، دنیا کے حالات بالعموم اور مسلم اور کمزور  ممالک کے حالات بالخصوص مزید بدتر ہوں گے۔

ای پیپر دی نیشن