عبدالوحید خان ایک دیرینہ سیاسی رہنما اور کارکن تھے۔ ان کی ساری عمر قیام پاکستان کی جدوجہد میں بسر ہوئی۔ انہوں نے اشک صاحب کی تقریر کے جواب میں کہا مجھے ان بہادر لوگوں کی زیارت کروائیں جو سرگودھا جیسے صحافتی لحاظ سے بنجر علاقے میں اڑھائی سو کی تعداد میں اخبار شائع کررہے ہیں۔ یہ تو ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس کی نہ صرف داد دینی چاہئے بلکہ اس کی خوب حوصلہ افزائی ہونی چاہے۔ اشک صاحب نے جو اشک بہائے تھے وہ بالکل رائیگاں گئے۔ انہوں نے اس بھرے اجتماع میں خفت اٹھائی اور وفاق کو ریلوے کے اور بھی زیادہ اشتہارات ملنے لگے۔اشک صاحب بھی کمال شخصیت تھے وہ جب کبھی کراچی اور لاہور جاتے تھے اور مشتہرین اور ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں میں اشتہارات کے لئے رابطے کرتے تھے تو ایک قرآن مجید کا نسخہ بھی ساتھ لے جاتے تھے اور بڑی بڑی قسمیں اٹھا کر کہتے تھے کہ وفاق کی اشاعت تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ اصل اخبار ان کا شعلہ ہے۔ وفاق ان دنوں جماعت اسلامی کا مخالف اخبار تھا۔ جناب مصطفی صادق ان رہنمائوں میں شامل تھے جنہوں نے انتخابات میں براہ راست حصہ لینے کی مولانا موودی کی حکمت عملی سے اختلاف کیا اور اسے مولانا کے بنیادی نظریہ کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کااز سر نو جائزہ لینے کا مطالبہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد جب ہم جماعت اسلامی کے اس اجتماع میں شریک ہوئے جہاں گورنر امیر محمد خان نے لائوڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی۔ مولانا اپنی لکھی ہوئی تقریر پڑھتے جاتے تھے اور کچھ کچھ فاصلے پر مکبرین ان کی تقریر کے الفاظ اور فقرے دہراتے رہتے تھے۔ اسی اجتماع پر حکمران جماعت کے غنڈوں نے حملہ کر دیا تھا جس میں جماعت کے سمندری سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ رکن اللہ بخش گولی لگنے سے شہید ہوگئے۔ ہم اس اجتماع کے اسٹالوں سے گزر رہے تھے کہ اچانک ہم نے روزنامہ شعلہ کا اسٹال بھی دیکھا۔ اب کلین شیو عبدالرشید اشک نے داڑھی بھی رکھ لی تھی۔ وہ بظاہر جماعت کے کارکن ہونے کا تاثر دے رہے تھے اور اپنے اخبار کو وفاق کی مخالفت میں از خود ہی جماعت اسلامی کا ترجمان بنا لیا تھا۔ یہ کایا پلٹ ہمارے لئے سخت حیرت کا موجب بنی۔
ہمارے قیامِ سرگودھا کا ایک دلچسپ اور نہایت تکلیف دہ واقعہ ذہن کے افق پر منڈلا رہا ہے۔ یہ ہمارا پریشان حالی کا دور تھا۔ ہم نئے نئے سرگودھا گئے تھے اورلائل پورمیں جن مسائل سے سابقہ پڑا تھا ان سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہم نے یہ پناہ گاہ ڈھونڈی تھی۔ سٹینڈرڈ بینک سے ایک چیک کے عوض دو ہزار روپے ایڈوانس لئے تھے اور یہ چیک کیش نہیں ہوسکا تھا۔ 30 جون کی تاریخ قریب تھی۔ بینک کا اصرار تھا کہ ہم تیس سے پہلے پہلے دوہزار روپے جمع کرا دیں، وہ یکم یادو تاریخ کو یہی دو ہزار روپے پھر ہمیں ایڈوانس کردیں گے۔ ادھر تنخواہوں کی ادائیگی کا مسئلہ منہ کھولے کھڑا تھا۔ مصطفی صادق صاحب نے لاہور کی راہ لی اور اپنے دوست حاجی برکت علی صاحب سے دو ہزار روپے ادھار حاصل کئے اور پھر سرگودھا لوٹ آئے۔ ہمارے دفتر میں ایک نوجوان نیا نیا ملازم ہوا تھا۔ ہم نے اس کی نیکی اور شرافت دیکھ کر اسے رہائش کے لئے دفتر میں ایک کمرہ بھی دے دیا تھا۔ مصطفی صادق صاحب نے اسے بلایا۔ دو ہزار روپے اس کے ہاتھ میں تھمائے اور کہا کہ سٹینڈرڈ بینک جائو اوریہ رقم وہاں جمع کرا دو۔ وہ نوجوان خوشی خوشی دو ہزار روپے لے کر چلتابنا اور شام تک واپس نہیں آیا اور نہ ہی اس کا کوئی سراغ ملا۔ اس خیال سے کہ وہ کسی حادثے کا شکار نہ ہوگیا ہو ہسپتالوں اور تھانوں سے بھی اس کی خبر گیری کی مگر اسے ملنا تھااور نہیں ملا۔ ہمارے ایک ساتھی مولوی محمد عیسیٰ اس نوجوان کو ملازمت کے لئے کہیں سے ڈھونڈ کر لائے تھے۔ انہوں نے بھی اس کی تلاش کے لئے ہرممکن کوشش کی مگر وہ تو شائد کوئی خلائی مخلوق تھا جو ہمارے دو ہزار روپے لے کر چلتا بنا۔ اب ہمارے سامنے تین مسائل ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ ایک سٹینڈرڈ بینک کو ادائیگی۔ دوسرے تنخواہیں، تیسرے حاجی برکت علی صاحب کو ادھار رقم کی واپسی۔ یہ دو ہزار روپے کیا گئے ہمارے دفتر اورگھروں میں ماتم کا سماں تھا۔ اس روز سوگ کی یہ کیفیت تھی کہ گھروں میں چولہے روشن نہ ہوئے۔ ہمارے بزرگ مولانا گلزار احمد پراچہ کو اس سانحہ کی خبر ہوئی تو وہ کسی معاون کی مدد سے سائیکل پر دفتر وفاق پہنچے۔ گزشتہ شب ہی جب ہم ان کے زیر تعمیر گھر میں ان سے بات چیت کررہے تھے اور ڈرائنگ روم کا فرش ابھی پختہ نہیں ہوا تھا۔ ان کے بیٹے حسین (اب ڈاکٹر حسین احمد پراچہ) گھر کے داخلی حصے سے چائے کی کیتلی لے کر آئے اور ناہموار فرش کی وجہ سے توازن برقرار نہ رکھ سکے اور کیتلی کی ساری چائے مولانا گلزاراحمد صاحب پر آ پڑی مگر وہ بڑے صابر و شاکر انسان تھے۔ سخت تکلیف کے باوجود ان کے منہ سے دکھ کا کوئی لفظ نہیں نکلا۔ اگلے روز ہی وہ ہمارا دکھ بٹانے ہمارے پاس تشریف لے آئے اور ہمارے لئے کھانا بھی گھر سے پکا کر لے آئے اور دو ہزار روپے بھی دیئے۔ مولانا کا یہ جذبہ ٔ ایثار مصطفی صادق صاحب اورمجھے ہمیشہ یاد رہا اور ان کے صاحبزادوں ڈاکٹر حسین احمد پراچہ اور ڈاکٹر فرید احمد پراچہ سے ہماری الفت برقرار رہی۔ (ختم شد)
٭…٭…٭