ریاست ترقی یافتہ ہو کہ ترقی پذیر ،سب کے سب امن کے خواہاں ہوتے ہیں پھر بھی دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کا امن تباہ کر کے اسے جہنم بنایا جا رہا ہے حالانکہ دعویٰ سب کا یہی ہے کہ ترقی اور خوشحالی کے لیے پہلی بنیاد امن ہے۔ جہاں امن وہاں ترقی اور جہاں بدامنی وہاں سے صرف امن کی فاختہ نہیں اڑتی بلکہ سرمایہ کاری ،کاروبار حیات سب تباہ ہو کر برباد ہو جاتا ہے۔ لمحہ موجود میں شور ہے کہ تیسری عالمی جنگ کسی وقت بھی چھڑ سکتی ہے جبکہ سب جانتے ہیں کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے انسان اور انسانیت کو کچھ نہیں دیا پھر بھی تیسری جنگ عظیم کی دھمکی موجود ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ روس اور یوکرائن جنگ میں کون سے فائدے اٹھائے جا رہے ہیں۔ یوکرائن اور روس کسی لحاظ سے بھی،، ہم پلہ،، نہیں لیکن مفاد پرستوں نے یوکرائن کو سامان حرب و ضرب دے کر ،،چڑیا کو باز،، سے ٹکرا دیا۔ مسئلہ صرف نمبرداری اور ٹھیکیداری کا ہے۔ کوئی مرتا ہے تو مرے ،پس پردہ طاقتوں کو کسی کی کوئی پرواہ نہیں ،ماضی میں اس نمبردار نے ایران عراق کو جنگ و جدل کے میدان میں جھونکا تھا برسوں دو ہمسایہ اور اسلامی ممالک دست و گریبان رہے نتیجہ مذاکرات، شرمندگی اور ایک دوسرے سے معافی نکلا ،عراق نے غلطی کا احساس کیا لیکن کون پوچھے کہ اگر معافی ہی مانگنی تھی تو برسوں مارا ماری کیوں کی؟ پاک بھارت جنگ میں بھی دعوے،، انگنت،، لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا‘ اگر یہی دونوں ریاستی استحکام ،علاقائی تجارت اور عوامی مفاد کے لیے کوئی سمجھوتہ کر لیتیں تو نہ صرف غربت ،بیماری ،بے روزگاری بلکہ تجارتی محاذ پر بہت زیادہ مفادات حاصل کیے جا سکتے تھے۔ ہمارے دو ہمسائے بھارت اور افغانستان کے مسائل زیادہ اور وسائل کم ہیں پھر بھی بھارت اور افغانستان حالت جنگ میں ہیں۔ جہاد افغانستان کے طالبان آ ج خود مملکت کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ اسی طرح بھارت ایک کامیاب معیشت کے باوجود عوامی غربت اور بے روزگاری ختم نہیں کر سکا۔ نہ ہی صحت کے مسائل کا خاتمہ کر سکا کیونکہ بڑی آ بادی کا،، پھندہ ،،اس کے گلے میں پڑا ہوا ہے لیکن کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کوئی سہولت دینے کو تیار نہیں، مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثریت آ بادی کو جبر و ظلم سے ڈرا دھمکا کر تابع رکھنے کا خواہش مند ہے۔ اس مقصد کے لیے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت نے نو لاکھ فوج وہاں تعینات کر رکھی ہے پھر بھی اسے وہ نتائج نہیں مل سکے جن کے بھارتی حکمران خواہش مند ہیں ،کشمیریوں نے اپنے جذبہ حریت میں تین نسلوں کی قربانی دی اور موجودہ نسل آ ج بھی اپنی جدوجہد میں پہلے سے بھی زیادہ مخلص دکھائی دے رہی ہے۔ بے گناہوں پر لشکر کشی، فائرنگ ،قید و بند اور غیر معمولی اسلحے کے استعمال سے بھی کشمیریوں کو اپنا نہیں بنایا جا سکا، اس بدترین صورتحال میں بھی دنیا کے امن کے ٹھیکے دار اور مسلم امہ کشمیریوں کو بھارتی ظلم و ستم اور بربریت سے اس لیے نہیں بچا سکی کہ بھارت سے ان کے مفادات وابستہ ہیں۔ عراق ،شام اور لیبیا پر بھی تاریخ بڑی ،،لشکر کشی ،،دیکھ چکی ہے اور آ ج بھی کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں، امن کے حقیقی ٹھیکے دار اپنی اسلحہ ساز فیکٹریاں چلا رہے ہیں اور منصوبہ بندی سے دنیا کے کسی نہ کسی کونے کو میدان جنگ بنا دیتے ہیں تاکہ ان کا اسلحہ بکتا رہے ،،امریکہ بہادر ،،کے ایما پر اسرائیل بڑی طاقت بن کر فلسطینیوں کو روند رہا ہے۔ اب اس نے غزہ کی تباہی کے بعد لبنان کا رخ کر لیا ہے لیکن ذمہ داران تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے اسرائیل، زمانہ حال کا ایک ایسا بدمعاش جو کسی اصول اور قانون کا پابند نہیں ،بس وہ مسلمان کو دشمن نمبر ایک سمجھتا ہے حالانکہ دین حق اسلام نے بھی یہودیوں کو اپنا پہلا دشمن قرار دیا پھر بھی مسلم دنیا مفادات اور اپنے معاملات کی غلامی میں کوئی عملی کاروائی کے لیے تیار نہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران تن تنہا اس تمام تر بحران میں مقابلہ کر رہا ہے۔ اسے بے پناہ مالی اور قیمتی جانوں کا نقصان بھی اٹھانا پڑا یقینا اس بے حسی اور مفاد پرستی میں جنگ و جدل کا دائرہ مزید وسیع ہو سکتا ہے۔ اس بات سے سب واقف حال ہیں کہ جنگ تباہی کے سوا کسی کو کچھ نہیں دے سکتی، پھر بھی فارمولا ،،من مرضی،، پر جنگ کا ماحول بنا کر نہ صرف اسلحہ بیچتے ہیں بلکہ اپنی چودھراہٹ کو مضبوط بناتے ہیں
اسلامی جمہوریہ پاکستان پر بھی بھارت نے ایک سے زیادہ مرتبہ جنگ مسلط کی لیکن ہماری عسکری اور سیاسی قیادت نے عوامی حمایت سے بھرپور رد عمل کا اظہار کیا۔ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اس نے اپنی امن پسند پالیسی میں کبھی بھی جنگ یا جنگی ماحول بنانے میں پہل نہیں کی اور اگر وہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنا تو وہ بھی بھارتی دھماکوں کے رد عمل میں ،چونکہ بدقسمتی سے مملکت کو دو ایسے ہمسائے ملے ہیں جو اس کے لیے کوئی نہ کوئی مشکل پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے آ مر حکمران جنرل ضیاء الحق نے ’’امریکہ بہادر،، کے اشارے پر جہاد افغانستان کیا اس سے روسی مداخلت رک گئی لیکن ہمیں دہشت گردی کا تحفہ مل گیا ہماری فورسز، عوامی قیادت اور قوم نے امن کی بحالی کے لیے بڑی قیمت ادا کی اور بہترین یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ پھر بھی وقفے وقفے سے بھارت اور افغانستان سے ایسے مسائل پیدا کیے جاتے ہیں کہ پاکستان کو استحکام نہ مل سکے۔ ایک اندازے کے مطابق اس سازش میں سرحد پار کے تخریب کاروں کے ساتھ ہماری اپنی صفوں میں موجود سہولت کاروں کی مدد بھی شامل ہے۔ موجودہ حکومت اور سپہ سالار کا ایجنڈا معیشت کی بحالی اور معاشی بحران کا خاتمہ ہے جو دہشت گردی پر قابو پائے بغیر ممکن نہیں ،ماضی میں ،،ضرب عضب اور آ پریشن ،،رد الفساد،، کا کامیاب تجربہ کیا جا چکا ہے۔ اسی کی روشنی میں مستقبل کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے کیونکہ کاروبار، تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے پرامن ماحول درکار ہے۔ چونکہ موجودہ دور میں دہشت گردی کی نئی لہر کا سامنا ہے اس لیے قومی اتفاق رائے سے اس ناگہانی مصیبت کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ایسے میں سیاسی عدم استحکام بھی نقصان دہ ہے۔ مستقبل قریب میں سیاسی معاملات حل ہوتے اس لیے دکھائی نہیں دے رہے کہ حکومت 26ویں ترمیم سے اپنے لیے ایک حد تک ریلیف حاصل کر چکی ہے لیکن اس میں 18ویں ترمیم کی طرح کچھ معاملات میں ابہام دکھائی دے رہا ہے جس کے لیے حکومت نے 27 ویں اور 28 ویں ترمیم کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ اس کے لیے بھی مشاورت اور تجاویز سے رائے عامہ ہموار کی جائے گی کیونکہ حکومت ملک کو ،،ڈیفالٹ ،،سے بچانے کے بعد معاشی بحران کے لیے کچھ بڑا کرنا چاہتی ہے جس کی راہ میں بڑی رکاوٹ پی۔ٹی۔ آ ئی ہے جو ہر بات پر اپنے قائدکی ریائی مانگتی ہے لیکن معاملات بھی حکومت سے طے نہیں کرنا چاہتی اور اسٹیبلشمنٹ ان کو گھاس نہیں ڈال رہی، اس لیے کہ 9 مئی ناقابل فراموش ہے۔ ان حالات میں بھی امن کی شدید ضرورت ہے جنگ کی نہیں۔ ترقی و خوشحالی اور معاشی بہتری کے لیے بھی پرامن ماحول درکار ہے۔ اس میں حکومت کی کوششیں اپنی جگہ لیکن سیاسی تعاون اگر نہ مل سکا تو بات بگڑ بھی سکتی ہے کیونکہ کامیاب معیشت کے لیے ہر قیمت پر امن چاہیے، جنگ نہیں۔