چانسلر کیلئے کپتان کا نام نہ دینے پر آکسفورڈ یونیورسٹی کیخلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے‘ پی ٹی آئی۔
یہ تو اب آکسفورڈ والوں کو پتہ چلے گا کہ ان کا پالا کن سے پڑا ہے۔ ابھی تو نام درج نہ ہونے پر پی ٹی آئی والے، جو لندن میں موجود ہیں‘ آکسفورڈ والوں کو قانونی نوٹس بھیج رہے ہیں کہ انکے مرشد کانام چانسلر کیامیدواروں میں کیوں شامل نہیں کیا گیا۔انکو پاکستانی حکومت نے سیاسی بنیادوں پر مجرم اور ملزم قرار دیا ہوا ہے۔ اگر وہ چانسلر بن جاتے تو یونیورسٹی کی نیک نامی میں اضافہ ہو جاتا۔ ویسے جو رویہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کا غیرممالک میں ہے‘ اس سے تو ملک کی نیک نامی میں جس طرح اضافہ ہوا ہے‘ اس طرح اگر نیک نامی آکسفورڈ کی ہونی تھی تو یونیورسٹی والے سوچتے ہونگے اچھا ہوا یہ نیک نامی نہیں ہوئی۔ برطانیہ والے انگریز کہتے ہیں کہ پاکستانیوں اور ہندوستانیوں نے اتنی بڑی تعداد میں آکر اگر ہمارے ہاں نوکری ہی کرنی تھی روٹی کمانی تھی تو پھر ہمیں ہندوستان سے نکالنے کی کیا ضرورت تھی۔ پھر تو بڑے فخر سے کہہ سکتے تھے‘ برمنگھم پیلس بھی ہمارا ہے‘ لندن ہمارا ہے‘ آکسفورڈ یونیورسٹی بھی ہماری ہے۔ ویسے بھی تو ہم آج تک بڑے فخر سے انکے کلچر اور زبان کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں۔ مگر افسوس ان کی اچھی عادتوں کو اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔ اب تو لگتا ہے جلد ہی برطانوی اخبارات میں پی ٹی آئی کی طرف سے مہم چلے گی کہ ’’آکسفورڈ یونیورسٹی کے معاملات چلانے والوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے۔ ان کو جہاں دیکھیں‘ انکے خلاف نعرے لگائیں‘ احتجاج کریں‘ انکے گھر کے گیٹ اور گاڑیوں پر مکے اور جوتے برسائیں۔ انکے بچوں سے شادیاں نہ کریں‘ ان سے لین دین نہ کیا جائے حقہ پانی بند کر کے انکی زندگی وبال بنا دی جائے کہ انہوں نے ہمارے مرشد کو اس قابل کیوں نہ سمجھا کہ ان کا نام بھی چانسلر کی فہرست میں دیتے۔ یاد رہے مرشد جی نے کہا تھا کہ وہ ہم سب سے زیادہ انگریزوں کو جانتے ہیں کیونکہ ان کا زیادہ وقت انکے ساتھ گزرا ہے۔ اور وہ ان کی رگ رگ سے واقف ہیں۔ شاید یہی واقفیت انگریزوں کو بھی کپتان سے ہے‘ اور اسی لئے انہوں نے ان کا نام نہیں دیا۔ بقول شاعر
کس منہ سے تیرا نام لوں دنیا کے سامنے
آئے گا کون ریت کی دیوار تھامنے
اور اس پر پی ٹی آئی والے سیخ پا ہیں۔
٭…٭…٭
طیارے سے اترتے وقت صدر مملکت کا پائوں مڑ گیا۔
صدر مملکت کے پائوں میں طیارے کی سیڑھیاں اترتے وقت موچ کیا آگئی‘ بہت سے حاسدین کہہ لیں یا رقیبانہ روسیاہ۔ ان کی باچھیں کھل گئیں۔ لگتا ہے صدر مملکت کا پائوں انہی رقیبوں کی نظر لگنے کی وجہ سے مڑا ہوگا۔ ورنہ اچھا بھلا وہ سیڑھیوں سے اتر تو رہے تھے۔ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ وہ گرے نہیں بچ گئے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے انہیں سیاست کی طرح اپنے آپ پر بھی پورا کنٹرول ہے۔ وہ لڑکھڑا کر بھی سنبھلنا جانتے ہیں۔ ورنہ انکے مخالف تو ذرا پائوں پھسلا‘ دھڑام سے سیڑھیوں سے گر کر ہسپتال پہنچ جاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں گویا ان کے چل چلائو کا وقت ہے۔ جب کچھ کہا جائے تو کہتے ہیں زرداری اور دیگر رہنماء بھی تو جب قانون کی گرفت میں ہوں تو ویل چیئر پر عدالتوں کا رخ کرتے ہیں۔ بعدازاں خود انہوں نے بھی اسی رسم کو جاری رکھا۔ اب یہ تو میڈیکل رپورٹ سے پتہ چلے گا کہ موچ آئی ہے یا پٹھہ چڑھ گیا ہے۔ ویسے بھی عمر کے اس حصے میں یہ ہوتا رہتا ہے۔
اب تو زرداری صاحب کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد بلاول اور آصفہ کا بھی گھر آباد کردیں‘ یوں اپنے ہاتھوں سے یہ اہم ذمہ داری بھی ادا کردیں گے۔ اب تو انہیں کسی طرف سے بھی کسی مخالفت کا، مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ کم از کم بلاول کی تو شادی کرکے وہ ان کا گھر آباد کریں اور خیر سے نواسوں کے بعد پوتے اور پوتی کو بھی ہاتھوں میں کھلا لیں۔
٭…٭…٭
خیبر پی کے میں طلبہ یونینز کو بحال کردیا گیا۔
خیبر پی کے میں طلباء یونین کی بحالی کا فیصلہ اچھا ہے یا برا‘ اس کا اندازہ جلد وہاں کی حکومت کو ہو جائے گا۔ پنجاب کے گورنر نے بھی یہی مشور دیا تھا مگر اسے پذیرائی نہیں ملی۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں پہلے ہی سب کچھ ہوتا ہے بس تعلیم نہیں ہوتی۔ جو کچھ ہو رہا ہے‘ اسکے بعد یہ طلبہ یونینز کی بحالی خیر سے زیادہ شر پھیلانے کا باعث بن سکتی ہیں۔ بے شک طلبہ یونین سیاسی تربیت کی نرسر یاں ہوتی ہیں‘ یہاں سے اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگ سامنے آتے ہیں۔ ماضی کے اوراق الٹ کر دیکھیں تو اچھے لوگ کم اور غلط لوگ زیادہ سامنے آتے رہے ہیں۔ یہی تنظیمیں مسلح گروپ بناتی ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو کر تعلیمی اداروں پر قبضہ کی جنگ لڑتی ہیں اور بھتہ خوری میں مہارت حاصل کرتی ہیں۔ کون نہیں جانتا سب کو معلوم ہے کہ خیبر پی کے میں تو حالات زیادہ گھمبیر ہیں۔ وہاں اگر حکومت اس طرح انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جھنڈے گاڑنے کا سوچ رہی ہے تو اسے یاد رکھنا ہوگا کہ وہاں سب سے مضبوط تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کی ہے جو افغان وار کی بدولت بہت منظم اور طاقتور ہے۔ اسکے بعد جمعیت طلبہ اسلام کی تنظیم ہے‘ اسے بھی یہی سہولت اور تربیت حاصل رہی ہے۔ پھر عوامی نیشنل پارٹی کی طلبہ تنظیم بھی منظم ہے۔ تھوڑی بہت پی ایس ایف بھی کہیں کہیں نظر آتی ہے۔ یوں سمجھ لیں آئی ایس ایف کیلئے کھلا میدان نہیں ہوگا۔ یہ سب تنظیمیں اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گی۔ کیونکہ سب خانوں‘ سرداروں پر مشتمل ہیں۔ حکومت جہاں ہاتھ ڈالے گی وہاں پھن پھیلائے مقابلے پر آمادہ کئی تنظیمیں موجود پائے گی۔ اب کہیں دوسرے صوبے بھی ایسا ہی کرنے لگے تو کیا ہوگا۔ کہیں بھی پرسکون تعلیمی ماحول باقی نہ رہے گا۔ کہیں سے دھرنا ہوگا‘ کہیں سے ہم سے جو ٹکرائے گا‘ پاش پاش ہو جائیگا‘ کہیں سے کفر اسلام کی جنگ ہے اور کہیں امیر غریب کی جنگ ہے۔ کا غلغلہ بلند ہوتا سنائی دیگا۔
٭…٭…٭
ڈکیتیوں میں خطرناک سرکاری اسلحہ استعمال ہونے لگا۔
اسلام آباد میں ایک روز میں ہونے والی دو ڈکیٹی کی وارداتوں میں ان ڈاکوئوں نے جو جدید اسلحہ استعمال کیا‘ وہ تو عام لوگوں کی دسترس سے ہی باہر ہے۔ ایسا جدید اسلحہ سرکاری اہلکاروں کے پاس ہوتا ہے‘ بنک ڈکیتی میں جدید گن سے لیس ڈاکو نے فائرنگ کرکے سکیورٹی گارڈ کو زخمی کیا اور رقم کا تھیلا چھین لیا۔ پھر فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گیا۔ اس واردات میں کچھ اور افراد بھی زخمی ہوئے۔ جب ویڈیو وائرل ہوئی تو ہلچل کہہ لیں یا کھلبلی تو مچنی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ سرکاری مال خانہ سے یہ اسلحہ کس طرح ان ڈاکوئوں کے پاس پہنچا۔ کس نے یہ اسلحہ نکالنے کی اجازت دی۔ اب ڈکیتی سے زیادہ اس بات پر لے دے ہو رہی ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو اتنے بااثر ہیں کہ سرکاری اسلحہ لے کر واردات کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ جس معاشرے میں انصاف بکتا ہو‘ قانون بکتا ہو‘ ضمیر بکتے ہوں‘ ایمان بکتا ہو‘ وہاں انسانوں کو بکنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ یہ ایک حساس مسئلہ ہے‘ اسلام آباد‘ وفاقی دارالحکومت ہے۔ اگر وہاں یہ لاقانونیت اس طرح پھیلتی پھولتی رہی تو پھر کراچی‘ لاہور‘ پشاور‘ کوئٹہ اور اسلام آباد میں کیا فرق رہ جائیگا۔ اب وہاں کے سکیورٹی گارڈز خوفزدہ ہیں کہ پندرہ یا بیس ہزار کی نوکری کے بدلے جان خطرے میں ڈالنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے کیوں ایسے عناصر کاقلع قمع نہیں کرتے جو جرائم میں ملوث ہیں یا انکی پشت پناہی کرتے ہیں۔
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے
ورنہ جس رفتار سے مجرموں کی آبادی بڑھ رہی ہے‘ یہ شریف لوگوں کا اس ملک میں رہنا مشکل بنا دیگی۔ کئی لوگ تو سرکاری اہلکاروں کے ڈکیتی میں ملوث ہونے سے شاکی نظر آتے ہیں۔