مستونگ میں سفاکانہ دہشت گردی قومی قیادتوں کے یکجہت ہونے کی ضرورت

Nov 03, 2024

اداریہ

بلوچستان کے ضلع مستونگ میں گرلز ہائی سکول سول ہسپتال چوک پر پولیس موبائل کے قریب زوردار دھماکہ کے نتیجہ میں طلبہ اور ایک پولیس اہلکار سمیت 9 افراد جاں بحق اور 35 شدید زخمی ہو گئے۔ زخمیوں میں پانچ کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔ اس دھماکہ میں طلبہ وین بھی زد میں آئی جن میں بیٹھے پانچ طلبہ جاں بحق ہوئے اور متعدد طلبہ زخمی ہو گئے۔ جاں بحق ہونے والے طلبہ کی عمریں پانچ سے دس سال کے درمیان تھیں۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ دھماکے میں پولیس موبائل کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ دھماکے کی آواز قریبی علاقوں میں بھی سنی گئی جبکہ پولیس موبائل اور اسکے پاس کھڑے رکشے تباہ ہو گئے۔ زخمیوں کو سول ہسپتال مستونگ میں داخل کرادیا گیا ہے جبکہ ہسپتال میں ڈاکٹروں اور دوسرے سٹاف کی کمی کے باعث زخمیوں کی فوری طبی امداد میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایس ڈی پی او مستونگ کے مطابق دھماکہ خیز مواد ایک موٹر سائیکل میں نصب تھا جو ریموٹ کنٹرولڈ تھا۔ دھماکے میں چار پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے دہشت گردی کی اس واردات کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دلوانے کی ہدایت کی ہے جبکہ حکومتِ بلوچستان نے محکمہ داخلہ بلوچستان سے واقعہ سے متعلق رپورٹ طلب کرلی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگتی نے مستونگ دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے شہید پولیس اہلکار اور معصوم بچوں کے ورثاء سے اظہار تعزیت کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے غریب مزدوروں کے علاوہ اب معصوم بچوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ ان کا انسانیت سوز اقدام قابل مذمت ہے۔ 
دریں اثناء قائم مقام صدر مملکت سید یوسف رضا گیلانی‘ وزیراعظم شہبازشریف‘ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دوسری حکومتی سیاسی شخصیات نے مستونگ میں ہونیوالی دہشت گردی کی اس واردات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے مذموم مقاصد کیلئے معصوم بچوں کو نشانہ بنانا بزدلی اور سفاکیت کی انتہاء ہے۔ انہوں نے سخت الفاظ میں باور کرایا کہ امن کو سبوتاژکرنے والے دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا۔ دہشت گرد عناصر انسانیت کے دشمن ہیں اور پوری قوم دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔ گزشتہ روز پشاور کے علاقہ ریگی میں بھی دہشت گردی کی واردات ہوئی جہاں دستی بم پھٹنے سے چار بچے زخمی ہوئے۔ پولیس کے مطابق کرکٹ کھیلتے ہوئے بچوں کو نالے سے دستی بم ملا تھا‘ پولیس نے بم ڈسپوزل یونٹ کو طلب کرکے وقوعہ کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ 
ہمارا یہ المیہ ہے کہ 2001ء میں امریکی نائن الیون کے واقعہ کے بعد ہمارے اس وقت کے جرنیلی آمر مشرف نے نیٹو کی افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرکے افغان طالبان اور دوسرے انتہاء پسند گروپوں کیلئے پاکستان میں دہشت گردی کا راستہ ہموار کیا جس کا خمیازہ ہم گزشتہ 23 سال سے سفاکانہ دہشت گردی کی صورت میں بھگت رہے ہیں اور اب تک سکیورٹی فورسز کے دس ہزار سے زائد جوانوں اور افسران سمیت 80ہزار سے زائد قیمتی انسانی جانیں اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں جن میں کئی سرکردہ سیاسی شخصیات بھی شامل ہیں۔ امریکہ اور اسکے نیٹو اتحادی تو پاکستان کی معاونت سے افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کرکے اپنا پہلو بچا کر افغانستان سے نکل گئے مگر ہمیں مستقل طور پر دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا گیا‘ نتیجتاً گزشتہ 23 سال سے ہماری دھرتی پرامن کا قیام ایک سراب بنا ہوا ہے جبکہ بدامنی کی اس فضا میں ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت کو بھی پاکستان میں بدامنی پھیلا کر اسکی سلامتی کمزور کرنے کے مقاصد کی تکمیل کا نادر موقع ملا ہوا ہے۔  اس نے نہ صرف افغانستان کے دہشت گرد گروپوں کی فنڈنگ اور سرپرستی کرکے ان سے پاکستان میں بالخصوص سکیورٹی فورسز کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے کا کام لیا بلکہ مشرف دور میں نواب اکبر بگتی کی ہلاکت کے ردعمل میں سرکشی کا راستہ اختیار کرنے والے بلوچ علیحدگی پسند عناصر کی بھی سرپرستی اور فنڈنگ کی اور انہیں پاکستان کیخلاف علیحدگی کی تحریک چلانے کے راستے پر لگایا۔ ان علیحدگی پسند عناصر نے جلاوطنی اختیار کرکے ملک سے باہر بھی پاکستان کو بدنام کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور امریکی کانگرس تک سے پاکستان کیخلاف قرارداد منظور کرالی جبکہ انہی عناصر نے بلوچستان میں بالخصوص پنجابی آباد کاروں کو جن میں اکثریت مزدور پیشہ افراد کی ہے‘ ٹارگٹ کرکے قتل کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ انکی یہ مذموم کارروائیاں ہنوز جاری ہیں اور اسی طرح صوبہ خیبر پی کے بھی دہشت گردوں کے ٹارگٹ پر ہے جنہیں کے پی کے حکومت کی امن و امان میں عدم دلچسپی کے باعث مزید کھل کھیلنے کا موقع ملا ہے اور وہ پاکستان سے خداواسطے کا بیر رکھنے والے طالبان دہشت گردوں کی پاکستان میں دہشت گردی کیلئے معاونت کر رہے ہیں۔ 
ہمیں اس دہشت گردی سے اپنے شہریوں کی قیمتی جانوں اور جائیدادوں کا نقصان تو اٹھانا ہی پڑ رہا ہے جبکہ یہ دہشت گرد چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر کام کرنے والے چینی انجینئروں اور دوسرے شہریوں کو ٹارگٹ کرکے انہیں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے کی بنیاد پر چین کو پاکستان سے بدگمان کرنے کی گھنائونی سازشوں میں بھی شریک ہیں۔ اس حوالے سے چین کی جانب سے متعدد بار پاکستان کے ساتھ تحفظات کا اظہار بھی کیا جا چکا ہے اور چینی باشندوں کی حفاظت یقینی بنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ اسی طرح ملک میں سرمایہ کاری کا دارومدار بھی امن و امان پر ہی ہے۔ اگر دہشت گردی کی وارداتیں اسی طرح تسلسل کے ساتھ جاری رہیں گی تو اس سے پاکستان میں سرمایہ کاری کا عندیہ دینے والے بیرونی سرمایہ کار بھی تحفظات کا شکار ہو کر پاکستان میں سرمایہ کاری کا رسک لینے سے گریز کر سکتے ہیں جبکہ اکثر ملکی سرمایہ کار پہلے ہی اپنا کاروبار سمیٹ کر بیرون ملک جانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 
اس تناظر میں دہشت گردی کا تدارک اور دہشت گردوں کو نکیل ڈالنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے جس کیلئے بطور خاص امریکہ پر زور دیا جائے کہ وہ کابل انتظامیہ پر دبائو ڈال کر اسے پاکستان میں دہشت گردوں کا داخلہ روکنے کا پابند کرے۔ چین پہلے ہی دہشت گردی کے تدارک کیلئے پاکستان کی معاونت کر رہا ہے کیونکہ سی پیک کو مکمل اپریشنل کرنے کیلئے پاکستان بالخصوص بلوچستان میں امن و امان کی مستقل بحالی لازمی تقاضا ہے۔ ہماری سکیورٹی فورسز تو اپنی قیادتوں کی زیرکمان دہشت گردی کے تدارک کیلئے اپنی جانوں کی قربانیاں دیکر بنیادی کردار ادا کر رہی ہیں جو دفاع وطن کے جذبے سے سرشار ہیں۔ اس حوالے سے ملک کے اندر موجود ان عناصر سے بھی آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے جو اپنے سیاسی مقاصد کے تحت ملک کی سلامتی کمزور کرنے کی نیت سے دہشت گردوں کی سرپرستی اور سہولت کاری  کررہے ہیں اور دہشت گردی کی مذموم وارداتوں میں خود بھی شریک ہیں۔ مستونگ میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات اسی سلسلہ کی کڑی نظر آتی ہے جس میں بالخصوص پولیس اور معصوم طالب علموں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سے پشاور کے سانحہ اے پی ایس کی یاد تازہ ہو گئی۔ دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کیلئے بے شک قومی اتحاد و یکجہتی کی بھی ضرورت ہے جس کی خاطر تمام قومی دینی‘ سیاسی قیادتوں کو اپنے اپنے اختلافات پس پشت رکھ کر باہم یکجہت ہونا چاہیے تاکہ ہمارے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو ہماری کسی اندرونی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔

مزیدخبریں