پاکستان کی قومی سلامتی اور کشمیر

Nov 03, 2024

تحریر

سردار عبدالخالق وصی 
پاکستان کی قومی سلامتی میں کشمیر کی حیثیت اور اھمیت نہ صرف قیام پاکستان بلکہ تصور پاکستان اور اگر میں یہ کہوں کہ مصور پاکستان علامہ اقبال اور مؤسس پاکستان  قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریہ پاکستان سے ھی کلیدی کردار کی حامل رھی ھے تو یقیناً کوئی مبالغہ نہ ھوگا۔ 
کشمیر و پاکستان کی قومی سلامتی لازم و ملزوم ھے۔ کشمیر کی پاکستان سے لازوال تاریخی، معاشرتی، مذھبی،جغرافیائی، تزویراتی اور ثقافتی وابستگی تھی جس باعث کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے آج تک قربانیاں دے رھے ھیں۔بھارت اور پاکستان کی پہلی جنگ بھی اسی مسئلہ پر لڑی گئی اور پاکستانی افواج کا قیام اور اس کے اھداف میں سر فہرست  اس خطے کاحصول رھا ھے یہی وجہ ھے کہ کہا جاتا ھے کہ  کشمیر کو سب نظر انداز بھی کر جائیں پاکستان کی فوج کشمیر کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کرسکتی۔ کشمیر پاکستان کی سٹریٹجک، دفاعی، خارجی،داخلی اور معاشی پالیسی کا بنیادی ستون ھے۔ اس لئیعساکر پاکستان کے ادارے  صرف پاکستان کے دفاع پر ھی مامور نہیں ھیں بلکہ پاکستان کی نظریاتی،تزویراتی، خارجی،داخلی،مالیاتی
(ایس ایف آئی سی) سب سرحدوں اور محاذوں پر بھرپور توجہ مرکوز کئے ھوئے ھیں۔  اپنے اپنے دائرہ کار میں رھتے ھوئے عسکری ادارے  ھمہ جہت مصروف کار رھتے ھیں۔
پاکستان کی قومی سلامتی سے مراد ان کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور مفادات کے اندرونی اور بیرونی خطرات سے تحفظ ہے۔
 پاکستان کی قومی سلامتی کے اہم اجزا میں 
 1. ملٹری سیکیورٹی: بیرونی جارحیت، دہشت گردی اور شورش سے تحفظ۔
 2. اندرونی سلامتی: امن و امان کی بحالی، انسداد دہشت گردی، اور پاکستان اور کشمیر کے اندر استحکام۔
3. معاشی تحفظ: معاشی مفادات، وسائل اور بنیادی ڈھانچے کا تحفظ۔
 4. انفارمیشن سیکیورٹی: حساس معلومات اور کمیونیکیشن نیٹ ورکس کا تحفظ۔
 5. توانائی کی حفاظت: قابل اعتماد توانائی کی فراہمی کو یقینی بنانا اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کرنا۔
 6. غذائی تحفظ: آبادی کے لیے خوراک کی دستیابی اور رسائی کو یقینی بنانا۔
 7. ماحولیاتی تحفظ: قدرتی وسائل کا تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنا۔
 8. سائبر سیکیورٹی: ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور ڈیٹا کا تحفظ۔
 9. سفارتی سلامتی: بیرون ملک سفارتی مشنوں اور مفادات کا تحفظ۔
 10. سماجی سلامتی: ثقافتی شناخت، سماجی ہم آہنگی، اور قومی اتحاد کا تحفظ شامل ھے۔
یہ قومی سلامتی ورکشاپ ان امور کے ساتھ ساتھ کشمیر اور پاکستان کی نظریاتی یکجہتی، کے موضوع پر بطور خاص مرکوز رھی۔ ورکشاپ کی سوچ بچار اور غور و فکر میں بھارت کی جانب مقبوضہ کشمیر میں کشمیر کے تشخص کے خاتمے سے وابستہ  5 اگست 2019 اور بعدکے اقدامات،بھارتی و ریاستی انتخابات کے نتائج و عواقب کے موضوعات بھی شامل تھے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر ھمیشہ ترجیح اول رھا لیکن شملہ معاہدہ کے بعد عالمی سطح پر یہی سمجھا جارھا ھے کہ یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی قضیہ زمین ھے حالانکہ یہ قضیہ زمین نہیں بلکہ یہ ڈیڑھ کروڑ سے زائد کشمیریوں کے مستقبل اور حق خود ارادیت کا مسئلہ ھے جس کا وعدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں موجود ھے اور اس پر عملدرامد میں نہ صرف بھارت رکاوٹ ھے بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رھی اور اسکو علاقائی تنازعہ سمجھنا شروع کردیا گیا اور پاکستان و بھارت کے درمیان سیز فائر لائین کو لائن آف کنٹرول میں تبدیلی سے کشمیریوں کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا اور اس سے منسلک ایشوز پیدا ھوئے جن میں جنرل مشرف کے دور حکومت میں سیز فائر لائین پر فینسنگ کا عمل شروع ھوا جو بین الاقوامی سرحد پر تو کیا جاسکتا ھے لیکن عارضی سیز فائر لائین پر یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی نفی ھے اور بین الاقوامی طور پر مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے قومی موقف میں کمزوری کا بھی موجب ھے۔ شملہ معاہدہ سے قبل پچاس کی دھائی میں کشمیریوں کے آر پار جانے پر مقامی انتظامیہ کی طرف سے پرمٹ چٹ پر آر پار جانے کی کشمیریوں کو سہولت میسر تھی جو بعد میں دراندازی اور مداخلت و دھشت گردی کے زمرے میں شمار ھونے لگی  اور اسکو دونوں ممالک کے درمیان  کشمیر میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے ایشو کا نام دے دیا گیا۔
حالانکہ ضرورت اس امر کی ھے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت  اور دونوں طرف کے کشمیریوں کی خطے میں باھمی آمد و رفت،تال میل و تجارت و سیاحت کی سہولت و  کو یقینی بنایا جائے۔
پاکستان کی قومی سلامتی کے مقاصد میں
1. خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حفاظت۔
2. علاقائی استحکام اور امن کو یقینی بنانا۔
 3. اقتصادی ترقی اور خوشحالی کو فروغ دینا۔
4. بین الاقوامی تعاون اور سفارت کاری کو بڑھانا۔
 5. فوجی صلاحیتوں اور دفاعی ڈھانچے کو مضبوط بنانا،  پاکستان کی یہ اھم اور بنیادی ضرورت ھے
اس سلسلے میں
 1. پاکستان آرمی
 2. انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)
 3. وزارت دفاع
 4. وزارت خارجہ
 5. نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (NACTA) جیسے ادارے اھم رول ادا کر رھے ھیں
لیکن پاکستان کو قومی سلامتی کو برقرار رکھنے اور موثر بنانے کے لئے جو چیلنج درپیش ہیں ان میں
 1. پاک بھارت دشمنی
 2. دہشت گردی اور انتہا پسندی۔
 3. معاشی عدم استحکام
 4. توانائی کی کمی
 5. موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی کمی جیسے ایشوز کا سامنا ھے۔
گزشتہ دنوں نشینل سکیورٹی ورکشاپ آن کشمیر کے موضوع پر آزاد جموں وکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں  10 کور ھیڈ کوارٹر کے زیر اھتمام کشمیر انسٹیٹیوٹ آف منیجمنٹ کے تعاون و اشتراک سے دوسری کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں سابق صدر آزاد جموں وکشمیر و عالمی شہرت کے حامل سفارتکار سابق سفیر چین، امریکہ واقوام متحدہ سردار محمد مسعود خان، سابق سفیر متعینہ امریکہ و سابق ایڈیٹر دی نیوز ڈاکٹر ملحیہ لودھی،
معروف شاعر،ادیب، دانشور ڈاکٹر پروفیسر مقصود جعفری، حریت راھنما یسین ملک کی اھلیہ اور ھیومن رائٹس ایکٹیوسٹ مشعال ملک عسکری امور کے ماھرین و میزبان ورکشاپ لفٹیننٹ جنرل شاھد امتیاز، جی او سی مری میجر جنرل محمد عرفان، ایڈیشنل چیف سکریٹری ترقیات آزاد جموں وکشمیر عاطف رحمان،برگیڈئیر قیصر اقبال،برگیڈئیر عامر اور دیگر مقررین نے بڑے معلومات افزا، فکر انگیز اور پر مغز مقالے پیش کئے اور شرکاء  ورکشاپ کے سوال و جواب کے سیشنز میں گھنٹوں اظہار خیال اور اپنے نکتہ نظر سے شرکاء ورکشاپ کے علمی وفکری گوشے منور کئے۔
سابق صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان ایک کرئیر ڈپلومیٹ کی حیثیت سے وسیع بین الاقوامی تجربہ رکھتے ھیں جو نہ صرف ان کے لئے بلکہ ھمارے لئے بھی ایک اعزاز  و افتخار کی بات ھے کہ وہ Son of the Soil ھیں انہوں نے اپنے خطاب اور سوالوں کے جواب میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے نشیب و فراز پر گفتگو کی اور بین الاقوامی مواقع اور تحفظات سے شرکا کو اگاہ کیا۔
اسی طرح ڈاکٹر ملحیہ لودھی کی کشمیر اور پاکستان سے کمٹمنٹ اس قدر شفاف اور پختہ ھے کہ جب یہ دونوں شخصیات کشمیر اور پاکستان پر گفتگو کرتے ھیں تو یوں لگتا ھے فکر و نظر کی آبشاریں بہہ رھی ھیں۔ مشعال ملک خود ایک ستم رسیدہ خاتون ھیں کہ انکے خاوند یسین ملک جس بھارتی ظلم و کرب کا شکار ھیں اور انکی ایک معصوم بچی بھی جب ان سے اپنے پاپا بارے سوالات کرتی ھیں تو ایک ماں اور ایک بیوی کے روپ میں جذبات و احساسات کا ایک الاؤ سلگتا ھے تو اسکی تپش و حدت سے کہیں آنسو موتیوں کی شکل میں دکھتے ھیں تو کہیں  ماہی بے آب کی کیفیت لگتی ھے وہ ایک ایکٹیوسٹ بھی ھیں اور اوریٹر بھی انہوں نے بھی تفصیل سے درد بھی شئیر کئے اور بھارت و دیگر اقوام کی بے حسی بھی لیکن انہیں یقین ھے کہ یاسین ملک کی جدوجہد کامیاب ھوگی۔آزاد جموں وکشمیر  قانون ساز اسمبلی کے سپیکر چوھدری لطیف اکبر، آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر کلیم عباسی، آزاد جموں وکشمیر  پاور ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن PDO کے منیجنگ ڈائریکٹر مسعود میر نے ورکشاپ کے شرکاء￿  کے وزٹ کے دوران اپنے اپنے اداروں بارے بریف کیا۔
یہ چار روزہ ورکشاپ اپنے مقاصد و اھداف کے حصول میں ایک مثبت اور گراں قدر کاوش کی موجب رھی اس سے مسئلہ کشمیر،پاکستان اور کشمیریوں کے درمیان باھمی تعلقات کار، پیار و یکجہتی، خدشات و تحفظات سمیت پاکستان کو درپیش مشکلات پر سیر حاصل مکالمات و مناقشات کا سلسلہ جاری رہا۔
  اس ورکشاپ کے مدار المہام لفٹینٹ جنرل شاھد امتیاز، نائب، میجر جنرل عرفان مہتمم اور منصرم برگیڈئیر قیصر اقبال اور انکی معاونت لفٹینٹ کرنل عثمان میجر عبداللہ اور دیگر subordinate آفیسرز،آئی ایس پی آر کے حکام اور کشمیر انسٹیٹیوٹ آف منیجمنٹ کے ڈاریکٹر جنرل برگیڈئیر اختر گردیزی،ڈاریکٹر طارق بٹ اور انکے معاونین کا حسن انتظام و انصرام قابل تحسین و تبریک تھا۔
جنرل شاھد امتیاز خود بھی son of the soil ھیں اور یہ ھم کشمیریوں کے لئے اعزاز و افتخار سے کم نہیں کہ پاکستان کی افواج میں چئیرمین جائینٹ چیفز آف سٹاف کمیٹی سے لیکر اعلیٰ سطح کے آفیسرز اس کا حصہ رھے ھیں اسوقت بھی دو کور کمانڈرز کا تعلق آزاد جموں وکشمیر کے اس خطہ سے ھے جو ھمارے اکابر نے آزاد کروایا اور اسکا پاکستان سے الحاق انکے ایمان کا حصہ ھے۔
لفٹینٹ جنرل شاھد امتیاز ںے سٹریٹجک سے زیادہ پاکستان و کشمیر کے نظریاتی و فکری یکجہتی پر زیادہ گفتگو کی اس قدر پر اثر و پر مغز تھی کہ وہ ایک جنرل سے زیادہ ایک نظریاتی و فکری فلاسفر پروفیسر لگ رھے تھے انکی اردو فارسی اور عربی سے ماخوذ اصطلاحات و اشعار سے مزین تقریر  وگفتگو سے اسقدر محظوظ ھوتے رھے کہ تین گھنٹے کی تقریر تیس منٹ کی لگی۔ میجر جنرل عرفان نے بھی اسی طرح اپنے خیالات و جذبات سے شرکاء ورکشاپ کو محظوظ و مسرور رکھا 
انکی تقاریر کا لب لباب 
1. کشمیر پاکستان کے لیے ایک بنیادی مسئلہ ہے، جو علاقائی استحکام کو متاثر کرتا ہے۔ 
اقوام متحدہ کی قراردادیں کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتی ہیں۔ 
 کشمیر میں بھارتی مظالم: انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، پیلٹ گنز، اور کرفیو۔ 
پاکستان کا موقف: کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت۔ 
 CPEC، افغانستان، اور وسطی ایشیا کے کشمیر پر اثرات۔ 
 ہندوستان کے اسٹریٹجک مقاصد: خطے میں تسلط، آبی وسائل کو کنٹرول کرنا۔ 
 پاکستان کا ردعمل: فوجی صلاحیتوں میں اضافہ، سفارت کاری کو مضبوط کرنا۔ 
 بین الاقوامی برادری کا کردار: کشمیریوں کے حقوق کو تسلیم کریں، حل کے لیے مداخلت کریں۔ 
 آگے کا راستہ: مسلسل سفارتی کوششیں، قومی اتحاد اور لچک-
 تنازعہ کشمیر پاکستان کی قومی سلامتی کی ترجیح ہے۔ 
عالمی برادری کشمیریوں کے حقوق کو تسلیم کرے۔ 
پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد کی حمایت جاری رکھے گا۔ 
کشمیر صرف ایک علاقائی تنازعہ نہیں ہے؛ یہ کشمیری عوام کے مستقبل سے متعلق ہے۔"
پاکستان کشمیر پر اپنے اصولی موقف پر سمجھوتا نہیں کرسکتا اور نہ افواج پاکستان مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرسکتے ھیں 
پاکستان فوج کا کشمیریوں سے عشق و محبت کا رشتہ ھے اور یہ رشتہ یکطرفہ نہیں دو طرفہ ھے کشمیریوں نے پاکستان کی سلامتی کے لازوال قربانیوں کی تاریخ رقم کی ھے اور پاکستان کشمیر کے "ک" سے پاکستان ھے یہ رشتے انمٹ اور لازوال ھیں۔
قائد اعظم نے قیام پاکستان کے موقع پر فرمایا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کنیڈا اور امریکہ کے مماثل ھونگے لیکن جب بھارت نے کشمیر پر نا جائز قبضہ کی غرض سے پاکستان پر 27 اکتوبر 1947 کو فوجیں اتاریں تو پاکستان نے اس ردعمل پر فوج کو منظم کیا اور ھماری پہلی جنگ بھارت سے کشمیر پر ھوئی اور آخری جنگ(اگرچہ پاکستان جنگ کا نہیں امن و آشتی کا علمبردار اور داعی ھے) بھی کشمیر پر ھی ھوگی پاکستان کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جنگ سیاسی اخلاقی اور سفارتی سطح پر جاری رکھے گا۔

مزیدخبریں