ایم عجائب ملک،لندن
ajaibmalik@gmail.com
رواں ماہ پانچ تاریخ کو امریکہ میں صدرارتی الیکشن کا بگل بجنے والا ہے…اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی صدارتی الیکشن کو دنیا بھر میں دلچسپی سے دیکھا جاتا ہے۔"جس کی لاٹھی اس کی بھینس "کے مقولے کے مصداق جس ملک کے پاس ہر قسم کے وسائل اور پیسہ موجود ہو اسی ملک کو گویا دنیا کے" چوہدری" بننے کے حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔ امریکہ میں الیکشن کیسے ہوتے ہیں اس موضوع پر یو ایس اے کے فورم "برائے ڈپلومیسی اور ڈائیلاگ" کے صدر جاوید لغاری نے لوکل میڈیا میںایک سیر حاصل بحث کی ہے۔ایک اندازے کے مطابق امریکہ اس وقت 27 ٹریلین جی ڈی پی کے ساتھ27مغربی ملکوںاور جاپان، ساؤتھ کوریا اور تاہوان جیسے ملکوں کی کولیشن کی سربراہی کر رہا ہے۔ 829 بلین ڈالرز کی رقم تو یہ نہ صرف اپنی اور اپنے حلیف ملکوں پرخرچ کر تا ہے بلکہ یوایس ایڈ کے ذریعے28 بلین کی رقم ترقی پذیر ملکوں کی امداد پر بھی خرچ کرتا ہے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے1947 سے اب تک امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا ملٹری اور اکنامک ڈونر رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال کے تحت اس ایڈ میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ اس کا سیاسی نظام ریپبلکن اور ڈیمو کریٹک کی صورت میں بالترتیب "سرخ اور نیلے رنگ" کے تحت دنیا کے سامنے نظر آتا ہے۔کبھی کبھی چھوٹی پارٹیوں اور آزاد ممبروں کی صورت میں بھی امیدوار نظر آتے ہیںکہ لیکن ان کی کوئی فیصلہ کن حیثیت نہیں ہوتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک کے برکس امریکہ کا صدر امریکی شہریوں براہ راست عوامی ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرا ادارہ یعنی "الیکٹورل کالج"(Electoral College) امریکی صدر کو منتخب کرتا ہے۔ ہر ایک اسٹیٹ کوایک انڈیپنڈنٹ اسٹیٹ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور اس کے عوامی ووٹوں کواکثریتی ووٹ والے امیدوار کو ایوارڈ کر دیا جاتا ہے۔ یہ الیکٹورل ووٹ کیسے بنتے ہیں اس کا سمجھنا ضروری ہے ہر ایک اسٹیٹ میں دو سینیٹرز کی سیٹیں ہوتی ہیں اور متعلقہ اسٹیٹ میں جتنے ڈسٹرکٹس یعنی اضلاع ہوتے ہیں ان کو شامل کر کے ان کے اتنے ہی الیکٹورل ووٹ بن جاتے ہیں مثلاً کیلفورنیا میں 52 اضلاع ہیں اوردو سینیٹرز کو ملا کر کیلی فورنیا کے کل 54 الیکٹورل ووٹ بن جائیں گے اس لیے جن ریاستوں کے زیادہ اضلاع ہیں وہ زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ جس ریاست میںجس امیداوار نے براہ راست عوامی ووٹ زیادہ حاصل کیے ہیں یعنی جیتنے والے امیدوار کو یہ الیکٹورل ووٹ دے دیے جائیں گے۔100 سینیٹرز۔۔۔اور لوئر ہاؤس 435 نمائندوں اور کولمبیا کے تین ووٹوں سمیت الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 538 ہو جاتی ہے، اور اس کی نصف تعداد269 بنتی ہے اور امریکی صدر بننے کے لیے صدارتی امیداوار کو کم از کم 270 ووٹ حاصل کرنے ہوتے ہیں۔۔۔یو ایس اے 50 ریاستوں اور ایک فیڈرل ریاست پر مشتمل ہے لیکن کسی ایک اسٹیٹ کو بھی الیکٹورل ووٹوں کی فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں ہوتی۔۔۔ اس پروسیس اور طریقہ کار میں آئینی تبدیلی صرف کانگریس ہی کرسکتی ہے جسے کم از کم 38 ریاستوں یعنی دو تہائی ووٹوں سے بھی زیادہ کی تائید حاصل ہو۔کہا جاتا ہے اس طریقہ کار میں بے شمار خامیاں پائی جاتی ہیں۔ زیادہ پریشانی اس وقت ہو تی ہے جب ایک صدارتی امیدوارعام الیکشن میں تو اکثریتی ووٹ حاصل کر لیتا ہے لیکن پھر بھی صدر منتخب نہیں ہوتا۔ یہ معاملہ 2016 اور پھر 2000کے الیکشن میں پیش آیا تھا۔ 2000کے الیکشن میں ریپبلکن کے جارج بش ڈیموکریٹس کے الگورکے مقابلے میں ہار گئے تھے کیونکہ صدارتی الیکشن میں 266 کے مقابلے میں ڈیموکریٹس امیدار کو 271 ووٹ ملے تھے۔ اسی طرح2016 میںڈونلڈ ٹرمپ کے ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں ووٹ کم تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ 304 ووٹ لے کر کلنٹن کے 227 کے کم ووٹوں کی وجہ سے جیت گئے۔2020 کے الیکشن میںصورتحال ڈیموکریٹ حق میںچلی گئی جب جو بیڈن کے 306 الیکٹورل ووٹ (81 ملین ووٹ( کے مقابلے میںٹرمپس کے 232 ووٹ(74 ملین) بنے۔زیادہ تر ریاستیں روایتی طور پر ریڈ اور بلیو ہوتی ہیں لیکن ہر دفعہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ نیویارک، کیلی فورنیاعام طور پر ڈیموکریٹ جب کہ ٹیکساس اور فلوریڈا کو ریپبلکن خیال کیا جاتا ہے لیکن کچھ ریاستیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں Swing Statesکہا جاتا ہے جہاں دونوں کی تعداد برابر بھی ہوسکتی ہے اور ان دونوں میں تھوڑی سی تبدیلی انہیں ریڈ اور بلیو میں تبدیل کر سکتی ہے۔سات ریاستیں تو ایسی ہیں جو 93 الیکٹریکل ووٹ کے ساتھ گویا" جنگ و جدل" کانمونہ پیش کرتی ہیں۔اری زونا (11 )جارجیا (16) میشی گن(15 ) نے دیدا (6)نارتھ کیرولینا(16)پینسل وینیا(19 )اوروَزکنسن (10)۔۔۔یہاں 5 ریاستوں میںتو پریزیڈینٹ بیڈن نے جیتا جب کہ ٹرمپ نے 2 ریاستوں میں۔۔۔آئندہ ہونے والے 2024 کے الیکشن میںان ہی ریاستوں کو Key Battle Ground یا لڑائی اورجنگی میدان سمجھا جارہا ہے۔ حالیہ پول کے مطابق اوسطاً 12%جارجیا میںٹرمپ کی لیڈ ظاہر کرتے ہیں۔ جبکہ نارتھ کیرولینا میں جو کہ پہلے ریڈ تھا وہاں گویا" گرہ یا ٹائی" پڑ گئی اور فیصلہ کن صورت حال نہیں بن سکی۔ مشی گن ایک اور ایسی سیٹ ہے جسے ایک اور جنگی میدان کہا جاتا ہے۔ یہ ریاست زیادہ تر مڈل ایسٹ کے ووٹوں پر مشتمل ہے اور اسی وجہ سے یہ ریاست بھی مڈل ایسٹ کی صورت حال کی بناء پر ابھی تک Undecided یعنی" گومگو" کی حالت میں ہے۔ٹیکساس میں ٹرمپ کی برتری نظر آتی ہے۔ لیکن حال ہی میں ان اعدادوشمارمیں کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، جس میں امیگرینٹس کا جھکاؤ ڈیموکریٹس کی طرف ہے۔ بڑے بڑے شہر جن میں ہوسٹن ، ڈلاس، اورآسٹن شامل ہیں،2002 میں ان کا جھکاؤ ،بلیو کی طرف تھا اور 2022 میں دو پاکستانی ممبرز اسٹیٹ اسمبلی میں منتخب ہوئے تھے۔۔۔، لیکن کانگریس یا سینٹ کا کوئی ممبر منتخب نہ ہو سکا۔۔۔ ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ پاکستانی امریکن نیشنل یہاں موجود ہیں جن میں سے چار لاکھ سے زیادہ کا تعلق ٹیکساس میں ہے۔ امریکہ میں مسلمان پاپولیشن کی تعداد 30 لاکھ سے زائد ہے جو کل آبادی کاصرف 1.1 فیصد بنتا ہے۔۔۔روایتی اور تاریخی طور پر پاکستانی اور امریکن لوگ ریپبلکلن کی سپورٹ کرتے ہیں۔ لیکن اس سپورٹ میں بش کی صدارت کے دوران افغانستان اور گلف میں جنگ کے دوران کمی آگئی تھی۔۔۔ بڑھتی ہوئی اور خراب صورتحال کی بناء پر مڈل ایسٹ میں لڑائی اور پاکستان میں سیاسی تبدیلوں کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ڈیموکریٹ کو سپورٹ کریں گے۔حال ہی میںہوسٹن میں موجود ایک اعلیٰ سطح کے تھنک ٹینک فورم برائے "ڈپلومیسی اور ڈائیلاگ" جس کا مضمون کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے اور جس کی موجودہ الیکشن پر گہری نظر ہے نے ، یو ایس الیکشنزاور پاکستان امریکن کمیونٹی کے موضوع کے تحت ایک مذاکرے اور راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کا اہتمام کیا تھاکہ امریکن کمیونٹی کے اندر اندرونی اتحاد ، رجسٹریشن اور عملی طور پر ہر سطح کے الیکشن کے پراسیس میں نہ صرف شمولیت بلکہ اس بات پر زور دیا ہے کہ رضاکارانہ اور فلاحی اداروں کی سر گرمیوںکو نہ صرف نظر آنا جانا چاہیے اور بلکہ اپنے امیدواروں کی پوری مدد بھی کرنی چاہیے اور Equality اور Justice جیسے موضوعات کو سامنے لانا چاہیے، جو کہ نا صرف پاکستان امریکن بلکہ مسلم کمیونٹی، امریکہ بلکہ دنیا بھر میں اس کی اپنی اہمیت ہے۔یہ امر باعث اطمینان ہے کہ اب نوجوان لیڈر شپ نہ صرف الیکشنز بلکہ دیگر سیاسی اور سماجی سطح پراپنے آپ کو" لیڈرشپ "کی صورت میں پیش کر رہی ہے۔یوایس اے اور پاکستانی امریکن تعلقات اور ریلیشنز کو مظبوط کرنا، نہ صرف پاکستان بلکہ ساؤتھ ایشاء اور مسلم ورلڈ کے لیے از حد ضروری ہے۔ پاکستانی کمیونٹی کو نہ صرف موجودہ الیکشنز بلکہ سیاسی اور سماجی سطح پر ایک اور قدم، آگے بڑھ کر امریکی معاشرے میں Proactive رول ادا کرنا چاہیے۔