سرمایہ داروں کے خلاف عوامی جذبات کا تجزیہ

Nov 03, 2024

ڈاکٹر ناصر خان 
ہمارے ہاں اکثر لوگ اس وقت تک انقلابی رہتے ہیں جب تک وہ کسی اچھی ملازمت کے حصول یا منافع بخش کاروبار کے آغاز میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ ایسے لوگوں کی سوچ اور باتوں میں انقلابی نظریات کی بھرمار ہوتی ہے، اور وہ نظام کی خرابیوں اور حکومتی نااہلیوں پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی انہیں ایک اچھی نوکری ملتی ہے یا کاروبار میں فائدہ حاصل ہونے لگتا ہے، ان کا انقلابی جذبہ رفتہ رفتہ مدھم پڑنے لگتا ہے۔ انہیں معاشرتی تبدیلی کی وہ شدت محسوس نہیں ہوتی جو پہلے ہوا کرتی تھی، بلکہ اب وہ اسی نظام کے فائدے اٹھانے اور اس میں اپنی جگہ مضبوط کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ یوں ایک انقلابی شخص بھی اپنے مقاصد کے حصول کے بعد رفتہ رفتہ اپنے نظریات کو خیرباد کہہ دیتا ہے، اور یوں انفرادی مفادات معاشرتی تبدیلی کے جذبے پر حاوی ہو جاتے ہیں۔
دنیا میں انسانی رویوں اور معاشرتی اصولوں کا مشاہدہ کیا جائے تو ایک دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ عام لوگ اکثر امیر لوگوں کے خلاف شدید جذبات رکھتے ہیں۔ ان کی یہ نفرت مختلف وجوہات کی بنا پر پنپتی ہے، جن میں معاشرتی عدم مساوات، امیر افراد کا استحصالی رویہ، اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے عوامل شامل ہیں۔
تقریباً ہر انسان کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ دولت مند بنے اور اپنی زندگی میں آسائشیں حاصل کرے، مگر ایک عجیب و غریب تضاد یہ ہے کہ اکثر لوگ سرمایہ داروں سے نفرت کرتے ہیں جب تک کہ وہ خود اس مقام پر نہ پہنچ جائیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عام آدمی سرمایہ دارانہ نظام کو خود پر ظلم اور استحصال کی ایک شکل سمجھتا ہے، جس میں سرمایہ دار اپنی طاقت اور دولت کو بڑھانے کے لیے عام لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔ مگر جب یہی لوگ خود اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں اور انہیں اس نظام کے فوائد اور پیچیدگیوں کا ادراک ہوتا ہے، تو ان کا نظریہ بدل جاتا ہے۔ اس وقت انہیں سمجھ آتا ہے کہ ایک کامیاب سرمایہ دار بننے کے لیے کتنی محنت اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے، اور یہ کہ سرمایہ داری میں کامیابی کے لئے رسک لینے اور چیلنجز کا سامنا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ادراک کے بعد، وہ اپنی سابقہ نفرت کو ترک کر دیتے ہیں اور سرمایہ داری کو ایک مثبت روشنی میں دیکھنے لگتے ہیں، کیونکہ اب وہ خود اس نظام کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں اور اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ یوں، 
انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی دولت کی غیر مساوی تقسیم ایک مسئلہ رہی ہے۔ دولت مند افراد اکثر مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے پاس ایسے مواقع اور وسائل ہوتے ہیں جو عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ فلسفیانہ نقط  نظر سے دیکھا جائے تو ایسی معاشرتی عدم مساوات کا سبب وہ معاشرتی ڈھانچہ ہے جو طاقت اور دولت کو چند افراد کے ہاتھوں میں مرکوز کر دیتا ہے۔ ارسطو جیسے فلسفیوں کا بھی ماننا تھا کہ جب کسی معاشرے میں دولت چند لوگوں کے پاس جمع ہو جائے تو عام لوگوں میں محرومی اور بے چینی پیدا ہوتی ہے، اور یہی بے چینی آہستہ آہستہ نفرت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
دولت اکثر لوگوں کو اختیار اور طاقت بھی فراہم کرتی ہے، اور جب یہ طاقت غلط استعمال کی جاتی ہے تو اس سے معاشرتی ناہمواری پیدا ہوتی ہے۔ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ امیر افراد اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرکے قوانین کو اپنے حق میں تبدیل کر لیتے ہیں اور معاشی نظام کو اس طرح چلاتے ہیں کہ ان کا فائدہ ہو۔ یہ چیز عام لوگوں میں ناامیدی اور غصے کو جنم دیتی ہے، کیونکہ انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ امیر افراد کے پاس نہ صرف دولت ہے بلکہ وہ قوانین کو بھی اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہیں
اخلاقیات کے تناظربھی دیکھا جائے تو بہت سے لوگ امیر افراد پر اس لئے بھی تنقید کرتے ہیں کہ وہ اپنی دولت کو معاشرتی بھلائی کے لئے خرچ نہیں کرتے۔ اگرچہ کچھ سرمایہ دار خیرات اور فلاحی کاموں میں حصہ لیتے ہیں، لیکن یہ کافی نہیں سمجھا جاتا۔ عام لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ امیر افراد زیادہ تر اپنی دولت کو ذاتی عیش و آرام پر خرچ کرتے ہیں اور انہیں معاشرتی مسائل کا احساس نہیں ہوتا۔ سقراط کا یہ کہنا تھا کہ حقیقی خوشی صرف دولت میں نہیں بلکہ لوگوں کی فلاح میں ہوتی ہے۔ جب امیر افراد اس بنیادی اخلاقی اصول کو نظرانداز کرتے ہیں تو عوام میں ان کے لئے نفرت پیدا ہوتی ہے۔
نفسیاتی نقط? نظر سے بھی سرمایہ دار کے خلاف نفرت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ حسد اور احساس محرومی ایسی فطری انسانی جذبات ہیں جو اکثر لوگوں کے رویے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ جب لوگ کسی کو بڑے عیش و آرام اور آسائش میں دیکھتے ہیں تو ان میں ایک فطری احساس پیدا ہوتا ہے کہ انہیں بھی وہ سب ملنا چاہیے، اور جب وہ خود کو اس سب سے محروم پاتے ہیں تو یہ جذبات نفرت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، معاشرتی عدم تحفظ کا بھی ایک کردار ہے؛ جب لوگوں کو معاشی یا معاشرتی تحفظ حاصل نہیں ہوتا تو وہ امیر افراد کو اپنی تمام پریشانیوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
لیکن ان سب کے باوجود ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے: کیا سرمایہ دار لوگ معاشرے کے لئے سودمند نہیں ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ سرمایہ دار ہی ہیں جو صنعتیں لگاتے ہیں اور بڑے بڑے کاروبار شروع کرتے ہیں۔ ان کے کاروبار سے پیدا ہونے والی ملازمتیں عام لوگوں کے لئے روزگار کا ذریعہ بنتی ہیں، اور یوں معاشرے کی معیشت میں استحکام اور ترقی کا باعث بنتی ہیں۔ اگر سرمایہ دار اپنی دولت کاروبار میں نہ لگائیں تو بے شمار لوگ روزگار سے محروم ہو سکتے ہیں اور معاشرتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اگرچہ عدم مساوات پیدا کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ معاشی سرگرمیوں اور وسائل کی تقسیم کو بھی ممکن بناتا ہے۔
دوسری طرف، یہ بات بھی حقیقت ہے کہ عام لوگ خود بھی سرمایہ دار کے کاروبار کا ایک حصہ ہوتے ہیں اور اس کی کامیابی میں کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ عام لوگ اپنی محنت سے کاروبار کو چلاتے ہیں اور اسے ترقی دیتے ہیں، مگر اس کے پیچھے خیال، منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کا ذمہ دار سرمایہ دار ہی ہوتا ہے۔ سرمایہ دار کے بغیر یہ کاروبار ممکن نہیں ہوتے اور نہ ہی روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں۔ لہذا، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سرمایہ دار معاشرتی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان کے بغیر معاشرتی استحکام اور معاشی ترقی کا حصول مشکل ہو سکتا ہے۔
سرمایہ دار معاشرے کا ایک قیمتی اثاثہ ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی دولت کے ذریعے معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک سرمایہ دار بھیک دینے کی بجائے لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے، جس سے نہ صرف افراد کو مالی استحکام ملتا ہے بلکہ ان کی زندگیوں میں ایک نئی روشنی اور خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے۔ سرمایہ داروں کی طرف سے فراہم کردہ ملازمتوں سے بے روزگاری میں کمی آتی ہے اور افراد کو اپنے اور اپنے خاندان کی کفالت کے قابل بنایا جاتا ہے۔ اس طرح، ایک سرمایہ دار اپنی محنت اور وسائل کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو خود کفیل بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ یہ ہر شخص کو آگے بڑھنے اور کامیاب ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس نظام میں محنت، صلاحیت، اور مواقع سے فائدہ اٹھا کر کوئی بھی فرد ترقی کر سکتا ہے اور اپنا مقام بنا سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام لوگوں کو آزادانہ طور پر کاروبار شروع کرنے، سرمایہ کاری کرنے اور منافع کمانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس طرح، اس نظام کے ذریعے عام انسان بھی اپنی محنت اور ذہانت سے ایک کامیاب سرمایہ دار بن سکتا ہے۔

مزیدخبریں