قصہ سید توصیف کی کتاب دوستی کی زنجیر !!

 باز گشت …طارق محمود مرزا،آسٹریلیا
tariqmmirza@hotmail.com
میں اس معاملے میں خود کو خوش قسمت تصور کرتا ہوں کہ دنیا کے متعددممالک میں میرے احباب موجود ہیں۔ میں جب بھی ان ملکوں میں بغرض سیاحت  جاتا ہوں ان دوستوں کی مہمان نوازی اور محبت سے راحت قلب و جاں حاصل ہوتی ہے۔ میرے حالیہ دورہ امریکہ اور کینیڈا میں بھی بہت سارے دوستوں نے اپنی محبت اور مہمان نوازی سے میرے خانہِ دل میں جگہ بنائی۔ ایسے ہی میرے ایک بہت اچھے  دوست کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں  موجود ہیں جنہوں نے ائرپورٹ پر میرا استقبال کیا اور آخری دن تک مہمان داری کا فریضہ ادا کیا۔ میرے اعزاز میں شاندار تقریب پذیرائی منعقد کی دیگر کئی تقریبات و اعزازات  کا اہتمام کیا، مہمان نوازی اور ادب نوازی نے میرا دل جیت لیا۔ سر تا پا محبتوں سے لبریز اس دوست کا نام سید محمد توصیف ہے۔ یہ پچھلے بیس سال سے کنیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مقیم ہیں۔پاکستانی کمیونٹی میں ہر دل عزیز اور انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔صحافی برادری کے ساتھ عوام الناس سے بھی محبتیں اور داد  و ححسین سمیٹی۔ اپنے پیشے اور اپنے کام سے ان کو اتنا لگاؤہے کہ کینیڈا میں منتقل ہونے کے بعد بھی اپنا پیشہ نہیں بدلا بلکہ اپنے تجربے،لگن اور محنت کو بروئے کار لاتے ہوئے۔ کمیونٹی کے لیے بہترین اخبار کا اجراء کیا۔ وہ گزشتہ دو عشروں سے مسلسل اور باقاعدگی سے ہر ہفتییہ اخبار نکال رہے ہیں۔اہل فکر و نظر  احباب جانتے ہیں کہ اخبارات و جرائد کسی بھی قوم کی آنکھ اور کان کی حیثیت رکھتے ہیں اور  معاشرے کی نمائندگی اور رہنمائی کرتے ہیں۔یہ فریضہ اتنے عرصے سے سید محمد توصیف تن تنہا انجام دے رہے ہیں۔ اردو پوسٹ، کنیڈا میں بہت مقبول ہے اور  ملک کے مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر تقسیم ہوتا ہے ۔یہ صرف کیمونٹی اخبار نہیں ہے بلکہ مکمل پیشہ ورانہ اور صحافتی اصولوں کے مطابق شائع ہوتا ہے۔اس طرح وہ ا?ردو  زبان و ادب ،صحافت اور پاکستانی  ثقافت  کی مسلسل خدمت انجام دے رہے ہیں۔ سید محمد توصیف کی پیشہ ورانہ خوبیوں، ملنساری، مہمان نوازی کے ساتھ ان کے اندر محبت اور دوستی کا سر سبز شاداب شجر ہرا بھرا اور تر و تازہ رہتا ہے۔وہ جس سے دوستی کرتے ہیں عمر بھر نبھاتے ہیں بلکہ اس کے جانے کے بعد بھی اس دوستی کو نہ صرف زندہ جاوید رکھتے ہیں۔ اس کی ایک زندہ مثال میرے پاس  ایک کتاب  کی شکل میں  موجودہے، جس کا نام "دوستی کی زنجیر" ہے۔ سید توصیف نے یہ کتاب اپنے صحافی دوست اصغر شاد کو خراج تحسین اور خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے لکھی ہے جس کے ساتھ انہوں نے پاکستان میں برسوں اخبار میں کا م کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ کتاب انہوں نے دوست سے الگ ہونے بلکہ اس کے دنیا سے چلے جانے کے بعد لکھی ہے۔ گویا اس میں د?نیاوی فوائد کا شائبہ تک نہیں ہے بلکہ سو فیصد دوستی اور عقیدت کار فرما ہے۔اصغر شاد  کہنہ مشق صحافی، سفر نامہ نگار, اینکر, ڈرامہ نگار اور بہترین کالم نگار کی شہرت سے مالا مال تھے.۔ انھوں نے بے پناہ صلاحیتوں کی باعث صحافت کے ہر میدان میں کامیابی اور کامرانی سمیٹی۔ سید توصیف اور اصغر شاد دونوں ایک ٹیم کی شکل میں سالہا سال تک کام کرتے رہے۔ اس دوران میں ان کی رفاقت کی کہانیاں دوسروں کے لیے باعث رشک تھیں۔ سید توصیف نے نہ صرف اپنے دوست سے فن صحافت  کے اسرار و رموز سیکھے بلکہ ان کی شفقت اور محبت سے بھی مستفید ہوئے جس کا اظہار اس کتاب میں جا بجا موجود ہے۔ دراصل سید توصیف اپنے دوست کی نوازشوں اور مہربانیوں کو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں بھول پائے اور ان کے انتقال کے صدمے سے گزرنے کے بعد کنیڈا میں اپنے اخبار میں پچاس سے زائد کالم لکھ کر اپنے اس دوست کو خراج عقیدت پیش کیا۔ یہ کالم اتنے مقبول ہوئے کہ بعد میں ان کو کتابی شکل میں مرتب کر کے "دوستی کی زنجیر" کے نام سے شائع کیا گیا جسے اہل قلم, صحافیوں اور ادیبوں نے بہت پسند کیا۔ اس کتاب کی خاص بات سید توصیف کا وہ جذبہ ہے جس نے انہیں یہ تحریر لکھنے پر ا کسایا۔انھوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ  اپنے مرحوم دوست پر اپنی محبت اور عقیدت  کے پھول ،بے شک وہ اس دنیا میں نہ ہوں کیسے نچھاور  کیے جاتے ہیں۔ فی زمانہ جب لوگ وقت بدلتے ہی آنکھیں بھی بدل لیتے ہیں وہاں دوست کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اس طرح کی خراج عقیدت ،در حقیقت بذات خود ایک عجوبہ اور کرشمہ ہی سمجھا جائے گا  جو فقید المثال ہے۔ اس کے لیے سید توصیف کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ کتاب میں مختلف النوع مضامین ہیں جس میں شاد مرحوم کی صحافیانہ کاوشوں اور ان کی پیشہ ورانہ خوبیوں اور انسانیت نوازی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دونوں دوستوں کے مشترکہ صحافتی حالات و واقعات سے جہاں سید توصیف نے اپنے دوست کو خراج تحسین پیش کیا وہاں اس پیشے کی حرمت اور  عظمت  پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اس میں خصوصی طور پر صحافی دوستوں اور عمومی طور پر سب کے سیکھنے کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔ یوں یہ صحافت کے حوالے سے ایک خوبصورت اور دلکش  واقعاتی ڈائری بن جاتی ہے۔ وطن عزیز میں جس طرح کی صحافت آج کل ہو رہی ہے ، ا س پیشے سے متعلق اعلیٰ  اخلاقی اور انسانی اصول و ضوابط جاننے اور سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ  معاون ومددگار ثابت ہو سکتا ہے۔میں سید توصیف کے اس خوبصورت جذبے کو سلام  پیش کرتا ہوں جنہیں گلہائے الفاظ کی شکل دے کر یہ گلدستہ عقیدت مرتب کیا گیا۔ میں اس کتاب" دوستی کی زنجیر" کو محبت اور دوستی کے نام سے منسوب کرتا ہوں۔د?عا ہے کہ خالق کائنات میرے مصنف دوست سید محمد توصیف کو صحت و سلامتی کے ساتھ ادب اور صحافت کی خدمت کا یوں ہی موقع عطا کرتا رہے اور ہمیں اس چمن کی خوشہ چینی کی سعادت عطاکرتا  رہے۔

ای پیپر دی نیشن