'قبرستان میں جگہ نہ ملے تو مجھے گھر میں دفن کر دینا'، فلسطینی کی دلخراش وصیت سامنے آگئی

Nov 03, 2024 | 14:09

اسرائیل کی فلسطین میں وحشیانہ بمباری اور جارحیت ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی جاری ہے، ایسے میں ایک بزرگ فلسطینی شہری کی وصیت سامنے آئی ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق شمالی غزہ پر ہونے والی حالیہ بمباری کے نتیجے میں 50 بچوں سمیت 84 فلسطینی شہید ہوئے۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کی بمباری اور محاصرے نے غزہ میں بہت بڑا انسانی بحران پیدا کردیا ہے، اس صورتحال میں ایک فلسطینی عطیہ نامی بزرگ کی وصیت سامنے آئی ہے جنہوں نے 1948 کی نکبہ کے بعد جبالیہ کیمپ میں آباد ہونے کے بعد  اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیں۔عطیہ کو پہلے 1948 میں اپنے گاؤں سے بے دخل ہونا پڑا اور اب حالیہ اسرائیلی حملوں کے دوران ان کی زندگی مکمل محاصرے میں گزر گئی، وہ بار بار اپنے خاندان کے بچھڑے ہوئے افراد کی یاد میں کھوئے ہوئے نظر آتے تھے۔ بگڑتی صحت، کمزور ہوتی ہوئی جسمانی حالت اور خوراک و پانی کی عدم دستیابی نے انہیں موت کے مزید قریب کردیا تھا۔رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کے محاصرے کی شدت کے باعث انہیں قبرستان میں دفن کرنا ممکن نہ تھا اور ان کی خواہش کے مطابق انہیں ان کے گھر کے پچھلے حصے میں دفن کرنا پڑا۔ان کے پوتے حمزہ صالح نے بتایا کہ میرے دادا عطیہ کی یہ وہ خواہش تھی جو انہوں نے اکتوبر 2023 میں غزہ پر ہونے والے حملے سے دہائیوں پہلے ظاہر کی تھی، انہیں پہلے سے اندازہ تھا کہ ان کی موت کے بعد انہیں دفن کرنا مشکل ہوگا۔حمزہ صالح نے بتایا کہ 7 اکتوبر 2023 سے جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر نہ ختم ہونے والے حملے شروع کیے تو میرے دادا کی صحت بگڑنے لگی تھی، ہر بار جب اسرائیل نے شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں زمینی حملے کیے تو ان کی حالت مزید خراب ہوتی گئی، ہمارے پاس پینے کا پانی ختم ہو گیا تھا اور کھانے کےلیے صرف چند لقمے تھے، وہ مسلسل 10دن تک بیت الخلا نہیں جا سکے تھے کیونکہ کمزوری کی وجہ سے وہ حرکت نہیں کر سکتے تھے، جس سے ان کا نظام ہاضمہ تباہ ہو گیا۔7 اکتوبر 2024 کو جبالیہ میں اسرائیلی فوج کی تیسری زمینی کارروائی کے آغاز پر میرے دادا نے آخری سانس لی۔حمزہ صالح نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں اب تک 43,000 سے زائد جانیں لے لی ہیں اور ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ زمین میں دفنانے کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔

مزیدخبریں