پاکستان میں سیاست و حکمرانی کا تاریخی جائزہ لیا جائے، تو 65برسوں میں اس پر سرداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کا بلاواسطہ یا بالواسطہ قبضہ رہا ہے۔ برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ سرداری‘ جاگیرداری وڈیرہ شاہی راجاﺅں مہاراجاﺅں کے باعث کبھی ہندوستان میں ایک خود مختار منظم حکومت قائم نہ ہو سکی تھی۔ ہر طرف طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا اور چند بااثر، دولت مند بے تحاشا زمینوں، جاگیروں کے مالک ایک مخصوص طرز عمل کے تحت غریبوں کو اوپر نہیں آنے دیتے تھے اور انہیں ”کامی“ بنا کر رکھتے تھے۔ دوسری بڑی علت جو برصغیر کے طبقہ¿ خواص میں پائی جاتی تھی وہ اپنی عزت اسی میں سمجھتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ محتاج غریب ہوں گے تو اتنی ہی ہماری عزت و حشمت نمایاں ہو گی۔ ایک اور بات بھی اس خطے کے اندر بکثرت موجود ہے کہ یہاں اکثریت اپنی ضرورت پوری کرنے کو اتنی اہمیت نہیں دیتی تھی جتنا کہ دوسروں اور عزیز و اقارب کو نیچا دکھانے کو دیتے تھے۔ پھر ایک اور بھی خطرناک بات یہاں کے لوگوں میں اس وقت پیدا ہوئی جب طبقہ¿ غرباءمیں قدرے بیداری پیدا ہوئی تو ان میں جاگیرداری کے بجائے جاگیردارانہ ذہنیت نے گھر کر لیا۔ آج بھی آپ ایک ریڑھی والے سے ذرا بھاﺅ تاﺅ کریں یا اس کے مال میں سے انتخاب کرنے لگیں تو وہ بڑے تکبر سے کہے گا ”جاﺅ باﺅ جی آگے جاﺅ، یہاں اس طرح سودا نہیں ملے گا جیسے آپ چاہتے ہیں۔“ اب یہ جھوٹی نمود و نمائش کا فتنہ درمیانے طبقے میں آ گیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ہر شخص انتقام لینے کے موڈ میں ہے۔ الاماشاءاللہ کوئی ہو گا جو حسن اخلاق اور عاجزی سے پیش آئے گا وگرنہ وادی نیل میں تو ایک فرعون ہوتا تھا یہاں ہر دوسرا شخص ایک نام نہاد فرعون ہے جو موقع پاتے ہی اپنے برے اور تلخ روئیے تلے آپ کو کچل دے گا۔ ہم سب یہی کچھ کرتے ہیں حالانکہ مسلمان ہیں، رحمتہ للعلٰمین کی امت میں سے ہیں پھر یہ کہ برداشت کا اس قدر فقدان ہے کہ اکثریت کے ناک پر غصہ ٹکا رہتا ہے۔ الغرض کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں انہی وجوہات کے باعث اچھی قیادت کا فقدان ہے۔ آمرانہ رویوں کا رگ و پے میں سرایت کرنے اور دولت کی غلط تقسیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار چند خانوادوں میں موروثی حق بن گیا اور ملکی سرمایہ بھی ملک سے باہر چلا گیا۔ اقتدار کی کرسی پر خود غرض، مفاد پرست، اقتدار کا بھوکا ٹولہ باریاں بدل بدل کر قابض ہوتا رہا۔ اسی کمزوری نے آمریت کو شہ دی اور بعض جرنیلوں نے بھی اس بہتی گنگا سے خوب پیاس بجھائی۔ یہ بھی سچ ہے کہ عوام نے بعض اوقات سویلین حکومت کی نااہلی اور ستم ظریفی سے تنگ آ کر فوج کے سربراہوں کو پکارا کہ وہ انہیں بچائیں لیکن انہوں نے بھی عوامی امنگوں کی پرواہ تو کیا فوج جیسے مقدس ادارے کے اعتماد کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، آمریت کو مسلط کیا، ایک لولی لنگڑی جمہوریت بھی قائم کی جو فوجی بوٹوں تلے قہقہے لگاتی اور مال بناتی رہی۔ یہ جمہوریت کے ساتھ ظالمانہ مذاق ہی کا نتیجہ ہے کہ آج صالح قیادت کا فقدان ہے اور پاکستان کو اغیار بیمار ریاست کا نام دینے لگے ہیں اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو قائد ہی نے جاگیرداری سسٹم کے خاتمے کا آغاز کر دیا تھا اور فی کس ایک ایکڑ کی تقسیم مہاجرین میں کی لیکن جو مقامی جاگیردار تھے ان تک پہنچنے سے پہلے وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اقبال نے بھی قائد کے سامنے پاکستان بننے سے پہلے جاگیرداری سرداری سسٹم ختم کرنے کا ٹاسک رکھا تھا اور لیجسلیٹو اسمبلی میں ان کو ٹکٹ نہ دینے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ ہمارے ہاں جس قدر یہ سرداریاں جاگیرداریاں وڈیرہ شاہیاں بڑھتی گئیں اس کے مقابل ہمسایہ ملک نے ان کا خاتمہ کر دیا اور آج بھارت ان آلائشوں سے پاک ہے اور جمہوریت کے تسلسل میں بھی کوئی رخنہ پیدا نہ ہوا۔ اب تو یہ عالم ہے کہ سرمایہ دار طبقہ بھی اس قدر آگے نکل گیا کہ لامحالہ ملک میں دولت چند خاندانوں میں بٹ کر رہ گئی۔ عام آدمی مسلسل محرومی کا شکار ہو رہا ہے۔ گویا ملک سرمایہ داری کے سحر میں ہے اور اس سے نکل نہیں پا رہا۔ ان سرمایہ داروں نے بیوروکریسی سے بھی رشتہ ناطہ جوڑ کر اپنے ہاتھ میں بالواسطہ حکمرانی لی۔ سیاست میں داخلے کے لئے بے تحاشا مال و دولت کی قدغن نے عام آدمی کو قیادت میں آنے ہی نہ دیا۔ پیسے کی گردش چند تجوریوں تک محدود ہو کر رہ گئی اور دولت کی فراوانی نے اعتدال پسندی کو بھی نقصان پہنچایا اور ملک میں ایک ملوکیت زدہ جمہوریت وقفے وقفے سے آمرانہ مزاج کے ساتھ چل نکلی۔ اب باہر نکلنے کا راستہ اگرچہ مفقود ہے تاہم اب بھی اگر عوام ہمت کریں اور قومی یکجہتی کے زور پر چاہیں تو اپنی حقیقی عوامی قیادت لا سکتے ہیں۔ اس کے لئے قربانیاں بھی دینا پڑیں گی اور کئی طرح کی رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا ہو گا۔ اب ایک ایسے قائد کی ضرورت ہے جو ملک سے جاگیردارانہ، سردارانہ اور بیوروکریٹک غلبے کو ختم کر دے۔ خود اپنے کردار کی بھی اصلاح کرے اور کسی بھی ایسے شخص کو اپنی جماعت میں داخل نہ ہونے دے جو سرمایہ پرستی کا رجحان رکھتا ہو اور کسی بھی بری شہرت کے حامل شخص کو ووٹ نہ دیا جائے۔ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے لئے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کو مشروط ٹھہرایا جائے ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جنہیں کوئی بیرونی قوت خرید نہ سکے۔ پاکستان کو مصر کے بعد ایک مثال قائم کرنا ہو گی اسی طرح پوری مسلم امہ کے عوام بھی خوشحالی امن سکون سے شادکام ہو سکیں گے۔ کہ آخر کو 57 اسلامی ملکوں کو اس سرمایہ داری جنون سے نکلنا ہو گا اور بیرونی قیادت کو اپنے لئے قیادت کے انتخاب یا تسلط کا موقع نہیں دینا ہو گا۔ پاکستان میں بیرونی ایجنسیوں کی آمدورفت کو بند کرنا ہو گا اور اندر کے غداروں کو عوامی قوت نے کچلنا ہو گا۔