مجاہد پاکستان.... ڈاکٹریٹ تک!!

جس دن لیاقت علی خان کا یوم ولادت تھا اسی دن وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران کی تجویز پر جناب مجید نظامی کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینے کی پروقار تقریب ہوئی‘ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخصیت کی وجہ سے خود ”اعزاز“ یا ”خطاب“ کی ہی قدرو قیمت بڑھ گئی ہو‘ قائداعظمؒ کا خطاب محمد علی جناح کی درخشاں شخصیت پر ایسا سجا ہے کہ کوئی دوسرا شخص قائداعظمؒ بن ہی نہیں سکا....ذوالفقار علی بھٹو کو ”قائدعوام“ محترمہ فاطمہ جناح کو ”مادر ملت“ جیسے خطابات اور القابات نے خود ان خطابات اور القابات کی توقیر میں اضافہ کر دیا‘ خود مجید نظامی نے صدر پاکستان آصف علی زرداری کو جیل کاٹنے میں صبر اور برداشت کرکے ملک میں موجود رہنے پر ”مرد حر“ کا خطاب دیا تھا ‘ مجید نظامی بہانے بہانے سے سبق پڑھا رہے ہوتے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ہر قسم کے حالات میں کوئی لیڈر باہر کے ملکوں کی پرکیف آب و ہوا میں نہ رہنا شروع ہو جایا کرے‘ بلکہ وطن سے اپنا رشتہ نبھانے کے لئے ہر قسم کی صعوبتیں اور گرم سرد موسم برداشت کیا کرے‘ مگر پھر یوں بھی ہوا کہ بعض رویوں کی وجہ سے مجید نظامی کو ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ”مرد حر“ کے خطاب کی وضاحتیں بھی کرنا پڑ گئیں۔ حالانکہ شخصیات پر انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ بیٹھنے والا خطاب کسی وضاحت کا طلبگار نہیں ہوتا۔ مثلاً قائداعظم کے خطاب پر کسی وضاحت کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا‘ مجید نظامی کو شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خان نے سیکرٹری جنرل آل انڈیا مسلم لیگ ہونے کی حیثیت سے ”مجاہد پاکستان“ کا سرٹیفکیٹ اور ایک تلوار سے نوازا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محترم مجید نظامی کی صحافتی خدمات کا سلسلہ بھی آگے بڑھتا گیا اور عزت اور توقیر میں اضافے کے ساتھ ”خطابات“ اور ”القابات“ میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا اور روشن قندیل کی طرح مجید نظامی پر لہجے ان خطابات کی عزت اور توقیر میں بھی اضافہ ہوتا گیا....ایسا کیوں ہوا؟ مختلف شخصیات کے رائے کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے مجید نظامی کی یادداشتوں پر لکھی گئی کتاب ”جب تک میں زندہ ہوں“ کے پیغام میں تحریر کیا تھا ”آج کے دور میں صحافت کم و بیش صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے لیکن نظامی صاحب اسے مشن سمجھ کر ”نظریئے“ کو کسی بھی قیمت نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے اور موجودہ دور میں جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں“.... سچی بات یہ ہے کہ حلقہ احباب میں نرم و ملائم لہجے والے مجید نظامی جبر ‘ استحصال اور آمریت کے سامنے ایسا کاٹ دار لہجہ اختیار کرتے ہیں کہ جو ظلم کی زنجیروں کے دائرے توڑنے لگتا ہے ....جناب مجید نظامی کی بے باکی‘ حق گوئی اور نظریہ پاکستان پر اک ذرا آنچ نہ بھی آنے کے اصولوں پر کار بند رہنے میں قومی سلامتی کے تحفظ کے اسی احساس کو بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کیا گیا ہے مثلاً لندن کے نامور مصنف ہربرٹ فیلڈ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ”کرائسس ٹو کرائسس“ میں ایوب خان دور کی سیاسی اور صحافتی صورتحال میں نوائے وقت اور اس کے ایڈیٹر ایڈیٹر مجید نظامی کے کردار کے دلیرانہ پہلو¶ں کا کھلے الفاظ میں اعتراف کیا ہے.... مجید نظامی دشمن سے الرٹ رہنے کے نظریے کے تحت بھارت پر کڑی تنقید کرتے رہتے ہیں ”نظریہ پاکستان“ کے محافظ کی حیثیت سے بھارت کی بد نیتی اور ملک کے اندر باہر بھارت کے ایجنٹوں کی سرگرمیوں کا اندازہ کرکے مجید نظامی کے لہجوں میں در آنے والی تلخی سے بھارتی بھی خائف رہتے ہیں مثلاً بھارت کی سابق ہائی کمشنر پارتھا سارتھی سے سوال کیا گیا تھا ....”بھارت پاکستان دوستی کی راہ میں سب سے بڑا پتھر کون ہے؟ تو اس نے کہا تھا....In One Word"Niazmi" He Is The Only Obstacle دہلی امن کانفرنس میں خود مجھ سے کلدیپ نیئر کی ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ ایٹمی دھماکہ مجید نظامی کے دبا¶ پر کیا گیا تھا اس طرح امریکہ کے لاس اینجلس سے شائع ہونے والے اخبار”پاکستان لنک“ میں مواحد حسین سید نے بڑی دلچسپ تحریر لکھی تھی اور اس مضمون کا عنوان تھا ”صحافت کی اپنی قسم کی شخصیت“ اور اس میں مواحد نے لکھا کہ....”مشہور ہے کہ ایوان صدر میں عارضی قیام پذیر پاکستانی صدور کے مقابلے میں وطن عزیز میں مجید نظامی کا اثر و رسوخ زیادہ ہے باخبر لوگ انہیں ”ڈان“ سے تشبیہہ دیتے ہیں جو یورپی دنیا میں ”ڈینیوب“ کا معروف نام ہے“ اس کے برعکس نوائے وقت کے جمہوری کردار اور کشمیر کے مسئلے کے بارے میں لکھتے ہوئے نوابزادہ نصراﷲ خان نے کہا تھا کہ ....”کشمیر کو جو ترجیح حاصل ہے یہ مجید نظامی کی بدولت ہے“ چودھری شجاعت حسین نے تسلیم کیا تھا کہ مجید نظامی نے صحافت کو عبادت سمجھا ہے تجارت نہیں‘....کشمیری لیڈر یاسین ملک ‘ مجید نظامی کو ”بابائے صحافت“ کہہ کر مخاطب بھی کر گئے تھے اور یہ بھی مانا تھا کہ انہیں بابا کہلوانا پسند نہیں آئے گا....مشائخ نے انہیں 50تولہ چاندی کا قلم اور 66 تولہ چاندی کی تلوار پیش کی تھی نوابزادہ لیاقت علی خان کی طرف سے ”سرٹیفائیڈ مجاہد“ ہونے کی سند حاصل کرنے سے پہلے اور بعد میں مجید نظامی ملک کے لئے مجاہدانہ صحافتی کردار ادا کرتے رہے ہیں میں نے انہیں ”شاہ صحافت“ کہہ کر مخاطب کیا تھا اب ”لیجنڈ“ مجید نظامی مجاہد پاکستان‘بابائے صحافت‘ شاہ صحافت‘ نظریاتی سرحدو کے کمانڈر انچیف ‘ ڈان اور مین آف کمٹمنٹ یا مین آف آئیڈیا “ جیسے بہت سارے خطابات سے نوازے جا چکے ہیں ‘ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کے ”آئیڈیا“ کی بھی داد دینی پڑتی ہے کہ جن کے فیصلے کے بعد دشمن کے لئے ”ڈان“ مجید نظامی اب ڈاکٹر مجید نظامی بن چکے ہیں ہماری طرف سے مجید نظامی کو مجاہد پاکستان سے ڈان اور ڈان سے ڈاکٹریٹ کا یہ سفر مبارک ہو اور خدا ہمیں بھی میدان صحافت میں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔

ای پیپر دی نیشن