پی پی پی .... ”بائیں بازو کی پارٹی“؟

مختلف نیوز چینلوں پر، اکثر سیاسی لیڈروں، دانشوروںاور تجزیہ کاروں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ”اگر دائیں بازو کی سیاسی، مذہبی جماعتوں نے آپس میں اتحاد نہ کیا اور الگ الگ انتخابی نشان پر، آئندہ انتخابات میں حِصّہ لیا تو اُن کے ووٹ تقسیم ہوں گے اور اس کا فائدہ پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو پہنچے گا“۔ اس طرح کی گفتگو سے یہ غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے کہ پی پی پی کوئی بائیں بازو کی جماعت ہے عام طور پر اشتراکیت پسند یا انقلابی پارٹی کو بائیں بازو کی جماعت کہا جاتا ہے۔ پی پی پی ہرگز انقلابی یا بائیں بازو کی جماعت نہیں ہے۔
1965ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ”مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے ایک ہزار سال تک لڑنے کا اعلان کیا‘ تو بِلاشبہ وہ کشمیریوں اور پاکستانیوں کے ہِیروبن گئے تھے۔ اِس جنگ میں چین نے پاکستان کی بھرپور حمایت کی تھی۔ بھٹو صاحب اپنا یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے تھے کہ ”وہ پاک چین دوستی کے بانی ہیں اور اُن کی سفارت کاری کی وجہ سے چین نے بھارت کی مدد کی ہے۔
30 نومبر 1967ءکو پی پی پی کے قیام سے قبل ہی، بھٹو صاحب نے چینی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ چیئرمین ماﺅزے تنگ کی سی یونیفارم، بند گلے کا کوٹ اورپتلون پہن کر عوامی جلسوں کو خطاب کرنا شروع کر دیا تھا اور جب وہ ماﺅزے تنگ کے سے انداز میں دونوں ہاتھ بلند کر کے تالی بجاتے تو حاضرین اُن پر نچھاور ہو جاتے۔ بھٹو صاحب نے اپنی پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ”صدر“ کے بجائے ”چیئرمین“ کہلوانا پسند کیا۔ چِین میں چیئرمین ماﺅزے تنگ اور پاکستان میں چیئرمین بھٹو۔
پی پی پی قائم ہوئی تو اُس کے راہنما اصول تھے 1۔ اسلام ہمارا دین ہے 2۔ جمہوریت ہماری سیاست ہے 3۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے اور 4۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہےں۔ میاں محمود علی قصوری کی قیادت میں ایک گروپ پی پی پی میں شامل ہوا۔
”بابائے سوشلزم“ شیخ محمد رشید نے اپنی بائیں بازو کی جماعت ”کسان کمیٹی“ پی پی پی میں ضم کردی تھی۔ بھٹو صاحب نے ہی شیخ صاحب کو پی پی پی کا سینئر وائس چیئرمین نامزد کیا۔ جے اے رحیم Leftist مشہور تھے۔ بھٹو صاحب نے انہیں پی پی پی کا سیکرٹری جنرل نامزد کیا۔ بائیں بازو کے دوسرے لیڈروں میں خورشید حسن میر، مختار رانا، معراج محمد خان، ڈاکٹر مبشر حسن اور دوسرے ترقی پسند شامل تھے۔ مزدور لیڈر بشیر بختیار نے بھی اپنی تنظیم ”پاکستان لیبر پارٹی“ کو پی پی پی کا حِصّہ بنا دیا تھا۔ میاں محمود علی قصوری 1970ءکے انتخابات سے پی پی پی میں شامل تھے۔
7 جولائی 1970ءکو حنیف رامے کی ادارت میں، پیپلز پارٹی کا سرکاری ترجمان روزنامہ ”مساوات“ لاہور جاری ہوا۔ ”مساوات“ میں ”سوشلزم“ اور ”اسلامی سوشلزم“ کی حمایت میں مضامین شائع ہوتے تھے۔ بھٹو صاحب عام جلسوں میں ”اسلامی سوشلزم“ اور پھر ”مساواتِ محمدی“ نافذ کرنے کا اعلان کرنے لگے۔ عام انتخابات سے قبل مشرقی اور مغربی پاکستان کے 113 عُلماءنے ”سوشلزم“ کو کُفر قرار دیا، لیکن بھٹو صاحب کی سحر انگیز شخصیت اور عوامی مقبولیت کے باعث، پی پی پی 1970ءکے عام انتخابات کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں دوسری بڑی پارٹی بن گئی۔ اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے اقتدار شیخ مجیب الرحمن کی ”پاکستان عوامی لیگ“ کو منتقل ہونا چاہئے تھا لیکن بھٹو صاحب نے قومی اسمبلی میں، دوسری اکثریتی پارٹی کے لئے بھی اقتدار مانگا۔ جنرل یحییٰ خان نے بھٹو صاحب کی اس سوچ سے فائدہ اُٹھایا۔
پاکستان دولخت ہونے کے بعد، فوج نے مجبوراً اقتدار بھٹو صاحب کے حوالے کر دیا اور وہ سویلین چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان مقرر ہو گئے۔ بھٹو صاحب کے پاس لامحدود اختیارات تھے۔ وہ اگر چاہتے تو ”سوشلزم“، ”اسلامی سوشلزم“ یا ”مساوات محمدی“ نافذ کر کے عوام کے مسائل حل کر سکتے تھے لیکن انہوں نے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے لئے پارٹی کے دروزے کھول دیئے اور وہ ”لاکھوں ساتھیوں سمیت“ پارٹی میں شامل ہونے لگے۔ بائیں بازو کے لیڈر مختار رانا کو مارشل لا کے تحت چار سال کی سزا دِلوا کے قومی اسمبلی کی رکنیت سے محروم کر دیا گیا۔ جے اے رحیم کو ایف ایس ایف کے اہلکاروں سے ٹُھڈّے مروائے گئے۔ وہ پارٹی چھوڑ گئے۔ بھٹو صاحب نے اپنے ایک جانشین معراج محمد خان کو بھی چار سال کے لئے جیل بھجوا دیا۔ مولانا کوثر نیازی کو خورشید حسن کے پیچھے ڈال دیا۔ وہ پارٹی چھوڑ گئے، لیکن جب ان کی گھریلو خواتین کو پارٹی کے جیالوں نے دہشت زدہ کیا تو وہ دوبارہ پارٹی میں شامل ہو گئے۔ ڈاکٹر مبشر حسن کو بھی پارٹی چھوڑنا پڑی ۔ لفظوں کی ذاتی جنگ میں میاں محمود علی قصوری، مولانا کوثر نیازی کی سطح پر نہیں آئے اور وہ بھی پارٹی چھوڑ گئے۔ پھر بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ ءحنیف رامے اور بائیں بازو کے کئی دوسرے لوگ بھی۔ ”بابائے سوشلزم“ شیخ محمد رشید یہ مناظر دیکھتے رہے اور آخر دم تک پارٹی میں رہے۔ دسمبر 1993ءمیں بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی قیادت سے محروم کر کے وزیرِاعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن منتخب کیا گیا، اُس میں ”بابائے سوشلزم“ نے بھی اپنا قیمتی ووٹ ڈالا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے ”سوشلزم“ کے بجائے ”بھٹو ازم“ کو پارٹی کا راہنما اصول قرار دیا اور 2007ءمیں این آر او کے بعد جب وہ وطن واپس آئیں تو لاڑکانہ میںپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوشلزم کی بجائے” مساواتِ محمدی ہماری معیشت ہے“۔
صدر آصف زرداری بھی ”سوشلزم“ کا نام اپنی زبان پر نہیں لاتے۔ ”بھٹو ازم“ کی بات کرتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی (سابق نیشنل عوامی پارٹی) کسی دور میں بائیں بازو کی جماعت کہلاتی تھی۔ وہ بھی ”بھٹو ازم“ کے ساتھ ہے اور ایم کیو ایم بھی۔ غریبوں کے حق میں انقلاب کی بات کرنا ایک فیشن سا بن گیا ہے۔ سوویت یونین کا بُت پاش پاش ہو گیا ہے۔ دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں جو 1970ءمیں امریکہ مخالف تھیں، انہوں نے سامراج دشمنی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے اور پاکستان تحریکِ انصاف کو ”اسلام اور سوشلزم“ کی بحث سے کوئی دلچسپی نہیں۔ مُلک میں بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے یا انقلابی لوگ تو موجود ہیں لیکن بائیں بازو کی کوئی سیاسی پارٹی نہیں۔ اور پیپلز پارٹی ”انفرادی ملکیت“ کی ایک جماعت ہے۔ پہلے بھٹو صاحب، پھر بیگم نصرت بھٹو، اُن کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اُس کی Sole Proprietor تھیں اور اب آصف علی زرداری ہیں۔ پی پی پی کو بائیں بازو کی پارٹی یا انقلابی پارٹی قرار دینا، سادگی ہے یا کچھ اور!

ای پیپر دی نیشن