چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اصغرخان کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل سلمان اکبرراجہ نے دلائل میں کہا کہ سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کا معاملہ جنرل اسد درانی، مرزا اسلم بیگ اور نصیراللہ بابر کے بیان سے ثابت ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نصیر اللہ بابر نے اسمبلی فلور پر لگائے جانے والے الزامات کے ثبوت اس وقت کے جوڈیشل کمیشن میں پیش نہیں کئے تھے۔ سماعت کے دوران وزارت داخلہ اور دفاع نے جواب جمع کرواتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس آئی ایس آئی میں سیاسی سیل کے قیام کی کوئی معلومات نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے اظہار ناراضگی کے بعد سیکرٹریزکو طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عدالتی ریکارڈ میں اب بھی وزارت دفاع کا بیان موجود ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ذوالفقارعلی بھٹو نے آئی ایس آئی میں سیاسی سیل قائم کیا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سیاست میں ایجنسیوں کا کردار نہیں ہونا چاہیے، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ فوج نے حالیہ دنوں میں این ایل سی کیس میں تین ریٹائرڈ جنرلزکو دوبارہ بحال کیا، دوران سماعت اٹارنی جنرل اور وزارت داخلہ کے نمائندے کی عدم حاضری پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہاربھی کیا، سلمان اکبرراجہ نے دلائل میں مزید کہا کہ سابق جنرل حمید گل آج بھی ٹی وی پر آ کر کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی نے نوے کی دہائی میں جمہوری اتحاد بنا کر درست اقدام کیا تھا۔