زندگی میں وہ کون سی سٹیج آجاتی ہے جب انسان کو زندگی سے زیادہ موت پیاری لگتی ہے ؟ جب انسان زندگی کی بانہوں سے بھاگ کر موت کی آغوش میں پناہ لینے آجاتا ہے ؟ یہ سوال ہمیشہ توجہ طلب رہا ہے مگر شائد کسی کے پاس بھی اس کا جواب نہیں ۔ پچھلے سال یعنی 2012میں دس اکتوبر کو برٹش کولمبیا کینڈا کی ایک پندرہ سالہ بچی نے خود کشی کر لی ۔ اُس کی موت کی پہلی برسی ہے ۔ یہ موت اپنے اندر بہت سارے سوال بھی رکھتی ہے اور بہت سارے جوابات بھی ۔ بہت سارے سبق اور بہت ساری عبرت بھی ۔
فیس بک پر کسی سے chatکرتے کرتے یہ بچی ایمنڈا اس آدمی پر اعتبار کرنے لگتی ہے جو عمر میں اُس سے بڑا تھا۔پھر ایک دن وہ شیطان آدمی بچی کوجسم کا اوپری حصہ نیم عریاں کرنے کا کہتا ہے ۔وہ ایسا ہی کرتی ہے اور وہ آدمی اُس کی تصویر کھینچ لیتا ہے ۔ کچھ عرصہ بعد دوبارہ اُس بچی کو وہی کرنے کو کہتا ہے ۔ وہ منع کر دیتی ہے ۔ اب وہ آدمی اُسکے انکار کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے اسکی تصویر کی پروفائل فوٹو بنا کر اسکے سکول کے بچوں کو addکرنا شروع کر دیتا ہے ۔ سکول میں سب بچے اس بچی کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ بچی،شراب منشیات اور جنسی سرگرمیوں میں راہ ِ فرار ڈھونڈتی ہے ۔ بچے اسے بُرے ناموں سے پکارنے لگتے ہیں ۔ بچی تین دفعہ سکول بدلتی ہے ۔ فیس بک سے بچی بھاگ سکتی تھی مگر روز ملنے والے سکول کے دوست کا سامنا تو کرنا ہی تھا۔خود کشی کی کوشش کئی بار ناکام ہوئی مگر آخر کار وہ ایک منحوس دن اپنی جان لینے میں کامیاب ہوگئی ۔
جب بچی بار بار سکول بدل رہی تھی تو کیا ماں باپ نے نوٹس لیا ؟ نہیں تو اس غیر ذمہ داری کی وجہ ؟ اور اگر لیا تو کیا کیا ؟ جب بچی کئی دفعہ ناکام خود کشی کی کوشش کر چکی تو والدین ، سکول ، ہسپتال ، کمیونٹی ۔۔کہاں تھے یہ سب لوگ ؟ کسی نے اُسکو بچانے کی ، اُسکی مدد کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟ اگر کی تو کیا والدین ماہر نفسیات کی ویٹنگ لائن میں پڑے پڑے ہی بچی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بچی کو بروقت نفسیاتی علاج کی سہولت مل جاتی تو شائد وہ کینڈا کے میڈیکل سے متعلقہ اس پرابلم کو جسے ویٹنگ لائن کہتے ہیں شکست دینے میں کامیاب ہو ہی جاتی ۔ تنہائی کا شکار لوگ فیس بک کا یا اس طرح کی دوسری سوشل ویب سائٹس کا سہارا لیتے ہیں ۔تنہائی دور کرنے کیلئے دنیا کے کسی بھی کونے سے اپنے ساتھ بات کرنے والا ڈھونڈتے رہتے ہیں ۔ بڑی عمرکے لوگوں میں یہ چیز دیکھنے میں آئے تو اتنی حیرت کی بات نہیں مگر میدانوں میں کھیلنے کی عمر ، دوستوں ، بہن بھائیوں کے ساتھ وقت گذارنے کی عمر ، اگر اس عمر میں بیٹھ کر بچے اپنی تنہائی سوشل نیٹ ورکنگ کی سائٹس پر دور کر رہے ہیں تو کہیں نہ کہیں ،معاشرے ،نظام اور والدین کا قصور ہے ۔ کہیں تو کچھ غلط ہورہا ہے ۔
بظاہر خودکشی کسی ایک واقعہ سے دلبرداشتہ ہوکر ہوتی ہے جیسے پاکستان کی تازہ خبروں میں سے ایک عورت نے غربت سے تنگ آکر اپنے بچے سمیت دریا میں چھلانگ لگا دی ۔ پانچ بہنوں نے شادی نہ ہونے کی صورت میں اکٹھے خود کشی کر لی۔وغیرہ وغیرہ ۔ مگر اس ایک واقعے کے پیچھے پوری ایک کہانی ہوتی ہے اور وہی کہانی ہے لوگوں کی زندگی سے اُوب کر موت کو گلے لگانے کی جس کا آغاز ڈپریشن سے ہوتا ہے ۔ڈپریشن کے بارے میں بات کرنا مناسب خیال نہیںکیا جاتا ۔ لوگ انکار کرتے رہتے ہیں ۔ نہیں نہیں ہم ڈپریشن کے مریض نہیں۔ خود کشی کرنیوالے لوگ 80%ذہنی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں ۔ مگر ذہنی بیماریوں پر بات نہیں ہوتی۔مغرب بہت ترقی کر گیا مگر مئی 2007ء میں امریکہ میں ایک عورت کی خود کشی کے بعد انشورنس کمپنی نے پیسے دینے سے انکار کر دیا ، والدین نے کیس لڑا اور جیتنے کے بعد وکیل نے کہا "بات پیسے کی نہیں تھی بات اس دھبے کی تھی جو خود کشی کی وجہ سے خاندان پر لگ رہا تھا"۔ اسے دھبہ سمجھا جائے یا پاکستان جیسے اسلامی ملک میں جہاں "خود کشی حرام ہے"اور پاکستان پینل کوڈ sec 325کے تحت ناکام خودکشی کی سزا جیل کی صورت میں ہے ۔اس سب کے باوجود پاکستان میں 2012میں 715خود کشیاں رپورٹ ہوئیں۔ کینڈا میں ہر سال 3200 ، امریکہ میں30000اور پچھلے پنتالیس سال میں پوری دنیا میں 60%خود کشی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ۔ خود کشی کو روکا نہیں جاسکتا ؟
سوچنے کی بات ہے ترقی کرتا انسان ذہنی سکون کے حساب سے تنزلی کی طرف جارہا ہے ۔ مشینوں سے کھیلتا انسان ایک دوسرے کو تنہا کر رہا ہے ۔ ڈپریشن کا مرض ہو یا خود کشی کی طرف مائل مریض ، دونوں کو توجہ چاہیئے ہوتی ہے ۔ مگر یہ دنیا شائد جس طرح دولت ، عزت اور رُتبے کے پیچھے بھاگتی ہے اسی طرح ہنستے اور صحت مند چہروں کے ساتھ تو سب وقت گذارنا چاہیں مگر اداس دلوںسے سب دور بھاگتے ہیں ۔ شائد مارلن منرو نے بھی کسی سے کچھ شئیر کرنے کی کوشش کی ہوگی ۔ شائد پاکستانی کامیڈین ننھا نے بھی کسی کو دل کا درد بتایا ہوگا ۔ مگر سننے والوں نے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیا ہوگا ۔ حساس انسان جب کسی سے دل کی بات کرتا ہے اس کو امید ہوتی ہے کہ اسکے بھروسے کو بہت قدر ،بہت وقار اور بہت توجہ ملے گی ۔ جب دوسرا انسان اس امید پر پورا نہیں اترتا تو شائد تب مارلن منرو جیسی دنیا کی خوبصورت ترین عورت،اور ننھا جیسا ہنسنے کھیلنے والا بھی احساسِ کمتری اور عدم تحفظ کا شکار ہوجاتا ہے۔ ہسپتال سکول والدین اور کمیونٹی ۔۔ایک خود کشی کے یہ سب ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ جب کوئی غربت کے ہاتھوں تنگ آکر مرتا ہے تو بے کار ہے دولت مندوں رشتے داروں اور ہمسایوں کی دولت اور جب کوئی تنہائی کا شکار ہوکر مرتا ہے تو بے کار ہے دنیا کا شور اور صنعتی ترقی …